وہ چلہ گاہ میں ہڈیوں کی گرم راکھ پر بیٹھی بھاگ بھری کو اس حالت میں دیکھ کر دنگ رہ گیا، وہ تو کچھ دن کیلئے شہر سے باہر گیا تھا لوٹا تو گھر میں خوفناک سناٹا اور اندھیرا ہی استقبال کو ملا، صرف ایک کوٹھری سے تھرتھراتی روشنی کی چند کرنیں دیواروں سے ٹکڑاتی لکڑی کے بند کواڑوں سے نکل کر دیوار پر محرکاتی تصاویر بنا رہی تھیں۔
ایک لمحے کو تو مہاتما چند کا سارا جسم خوف کی لہر کے زیر اثر کانپ گیا، سوچنے سمجھنے کی تمام حسیں جواب دے گئیں، قدم جم گئے زبان گنگیا گئی، صرف آنکھیں جاگ رہی تھیں کہ جو اس منظر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اچانک ہوا کے ایک تھپیڑے سے دروازے کا بند کواڑ کُھلا تو اس کی نظر اپنی بھاگ بھری پی پڑی جو پنڈولم کی طرح ایک ردھم میں ہلتی ہوئی عجب سی زبان میں کچھ بول رہی تھی آواز اتنی آہستہ تھی کہ مہاتما کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
ابھی شش و پنج میں ہی تھا کہ بھاگ بھری نے اپنا چہرہ کھلنے والے دروازے کی جانب کیا تو اُس کے چہرے پر کھینچی سُرخ لائنوں میں جلتے انگاروں جیسی آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مہاتما کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ گر پڑا۔
یہ بھی پڑھیے: قاضی فائز عیسیٰ، عمرانی تابوت کا آخری کیل
ہوش آیا تو بھاگ بھری سرھانے کھڑی تھی مہاتما کو تمام واقعہ ذہن میں آیا تو ایک بار پھر ڈر گیا، بھاگ بھری بولی پیا پرمیشور ڈریں نہیں ’بھیرو ناتھ‘ آئے تھے جنہوں نے آپ کی ترقی کیلئے مجھے راکھ خون کا چلہ بتایا اب آپ کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکے گا شیطان کی تمام شکتیاں آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اس کے بعد مہاتما نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور ترقی کرتا گیا بھیرو ناتھ آتا جو بتاتا اُس پر من و عن عمل ہوتا مہاتما کا کون سا ساتھی ساتھ رہے گا اور کون دور ہٹایا جائے گا کس کے قدم بھاری ثابت ہوں گے اور کس سے ہاتھ ملانا خود پر بھاری ہوجائے گا، یہاں تک کہ گھر میں کیا پکے گا اور کسے کھلایا جائے گا، مرغیوں کو ایندھن اور جلتے کوئلوں کو خوراک کا حصہ بنایا جائے گا۔ سب بھیرو ناتھ طے کرتے لیکن وہ کبھی مہاتما کے سامنے نہیں آئے تمام تر احکامات بند کمرے میں دوران چلہ بھاگ بھری کو آتے جو مہاتما چند کو بتائے جاتے۔ عمل ہوتا تو سب بھلی ہوجاتا اس سارے قصے میں کئی لوگوں کی بلیاں چڑھائی گئیں، کئی کمیوں کو بڑے بڑے عہدوں تک پہنچایا گیا، کالے جادو اور شیطانی عملیات نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی مثالیں قائم کردیں۔
جھوٹ کا کاروبار چمکا اور ہر ایک کی آنکھیں مہاتما چند کی روشنی سے چندھیا گئیں، دن کو رات اور رات کو صبح نو خیال کیا جانے لگا، بھاگ بھری کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ مہاتما بھی اس کے قابو میں تھا اور بھیرو ناتھ بھی، ہر طرف سکھ کی راگنی اور چین کا راگ گایا جارہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: سراج الحق ، پراجیکٹ عمران کا خاموش مجاہد
ایک کے بعد ایک بھاگ بھری کے سارے دشمنوں کا خاتمہ ہوا، مہاتما سمیت سب کو خیال تھا کہ یہ چار دن کی چاندنی نہیں ہمیشہ ہمیشہ کا اجالا ہے لیکن پھر کیا ہوا، ایک کے بعد ایک بری خبریں آنا شروع ہوئیں۔ بابا بھیرو ناتھ اپنے منصب سے ہٹا دیے گئے، مہاتما کے جو ہاتھ مٹی کو سونا کرتے تھے وہ سونے کو راکھ کرنے لگے۔
ایک کے بعد ایک ٹوٹکا اور جادو منتر اپنا اثر کھونے لگا، پہاڑ پر بنا محل خالی ہوا اور مہاتما اپنی بھاگ بھری کے ساتھ پرانے گھر کا مقید مکین بن گیا۔ وہ آج بھی اپنے اچھے دنوں کو یاد کرتا ہے جب اس کا طوطی بولا کرتا تھا اور اس کے طوطے دیسی گھی کی چوری کھایا کرتے تھے، وقت بدلا تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا، جو مؤکل کام کرتے تھے کچھ قید ہوئے اور کچھ بھاگ گئے۔ جو بچ گئے وہ آج روحانی قوتوں کے خوف میں مبتلا مہاتما کی مدد کو نہیں آرہے، انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ مہاتما کی مدد کو آئے تو بڑے مؤکلات کی طرح دھر لیے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کسی بوتل میں بند اندھیروں میں پھینک دیے جائیں گے۔
مہاتما آج بھی روز اندھیرا پھیلتے ہی مؤکلات کو پکارتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ ’میرے نوجوانو! خوف کے بُت توڑ دو‘۔
نوٹ: یہ کہانی سچی ہے صرف کرداروں کے نام اور مقام فرضی ہیں۔