لاہوری شاہی خاندان نے اداروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا‘ فردوس عاشق اعوا ن
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب خستہ اور تباہ حال اداروں کو پاﺅں پر کھڑے کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ شاہی خاندان نے نا صرف واسا کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا بلکہ اپنے سیاسی درباریوں اور حواریوں کی مدد سے اس کو تباہ کیا۔ لاہوریوں کی محبت کا دعوی کرنے والوں نے اس ادارے کا بھر پور استحصال کیا۔ آج یہ ادارہ دنیا کے بہترین اداروں سے مقابلہ کررہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وائس چیئرمین واسا شیخ امتیاز محمود اور ایم ڈی واسا سید زاہد عزیز کے ہمراہ واسا ہیڈ کواٹر آفس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ گندے پانی سے جڑے صحت کے مسائل کو لاہوری شاہی خاندان کی عطا سمجھ کر برداشت کرتے رہے۔ ظل سبحانی دوئم بارش کے پانی کو پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بناتے رہے اور بارشوں میں لمبے بوٹ پہن کر مینڈک کی طرح باہر نکل آتے اور فلم کی شوٹنگ شروع ہوجاتی۔ یہ پانی میں اتر کر بس انگلیاں ہلاتے رہے لیکن اداروں کو عوام کے دکھوں کا مداوا بنانے کے لئے جو روڈ میپ چاہیے تھا اس طرف نہ تو شاہی خاندان کا دھیان گیا اور نہ ہی کوشش کی گی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعلی عثمان بزدار کی قیادت میں واسا میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لاکر مسائل کے حل کو یقینی بنایا۔ بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے لارنس روڈ پر 14لاکھ گیلن پانی کو محفوظ کرنے کےلئے زیر زمین واٹر ٹینک بنائے گئے۔ اب وہ پانی پی ایچ اے بہترین انداز میں استعمال میں لارہی ہے۔ کشمیر روڈ اور شیرانوالہ گیٹ پر دو مزید زیر زمین واٹر ٹینک کی تعمیر کا کام جاری ہے۔جس کی گنجائش 15لاکھ گیلن فی ٹینک ہوگی اور اس منصوبے کی تکمیل کیلئے 19کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کے اندر چوری کو روکنا تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا عزم تھا۔ بڑے بڑے طاقتوروں اور ن لیگ کے ڈکیتوں کے گھر پانی مفت جاتا رہا اور غریب عوام کو رگڑا دیا گیا۔ آج واسا 25کروڑ سے بڑھ کر 60کروڑ روپے کمارہی ہے اور ان طاقتوروں کی جیب سے بلوں کا پیسہ نکال کر لارہی ہے۔ پینے کے صاف پانی کو یقینی بنانے کے لئے پہلی بار موبائل واٹر ٹیسٹنگ لیب متعارف کروائی گی ہے۔ جہاں بھی گندے پانی کی شکایت ہو واسا کو ہیلپ لائن پر اطلاع دیں۔ہمارا عملہ وہاں جا کر پانی چیک کرے گا۔ ڈاکٹر فردوس نے کہا کہ ماضی میں سیاسی بھرتیوں کے ذریعے اپنے کارکنان ادارے پر قابض کروائے گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلی دفعہ میرٹ پر شفاف بھرتیاں کیں اور خواتین کو باختیار بنانے کے لئے انہیں آپریشن ونگ میں تعینات کیا گیا۔ پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ 50سے زائد سب انجینئر میرٹ پر بھرتی کئے گئے۔ گاڑیاں دھونے کے مشغلہ میں ضائع ہونے والے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے 310کار واش سٹیشن پر ری سائیکلنگ پلانٹس لگائے گئے۔مساجد میں پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے بھی ری سائیکلنگ کے ذریعے اقدامات کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ واسا کے صارفین 5لاکھ سے بڑھ کر 7لاکھ ہوچکے ہیں اور 2ارب سے زائد کی آمدن واسا کی مدد سے حکومتی خزانہ میں آئی ہے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ کل کی پریس کانفرنس سے میرے موقف کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ میری بات کا ہرگز وہ مطلب نہیں تھا جو پیش کیا گیا۔ ماضی میں بے شمار حادثات ہوئے ہیں لیکن یہ طویل وقفے کے بعد ہوا ہے۔ اگر حادثوں کوکم کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں تو اس کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے یہ حادثہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کی ذمہ داری عوام کا تحفظ ہے۔ پنجاب اسمبلی کے باہر ایک سٹپنی مجھے ہدایات جاری کررہی تھی۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ پنجاب اسمبلی میں بیٹھی میری بہنیں آپ کا علاج کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر فردوس کا مقابلہ کرنے کی آپ کی اوقات نہیں پہلے الیکشن لڑیں پھر میرا مقابلہ کریں۔بطور سٹپنی عمران خان اور عثمان بزدار کے خلاف باتیں کر کے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان سٹپنیوں اور دیگر مخالفین کو بجٹ کی صورت میں موثر جواب دیں گے۔ انہوں نے کینڈین فیملی پر دہشت گردانہ حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاحت کے فروغ کیلئے ایسے واقعات کو روکنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سے بھاگنے کاشوقین ایک فنکار ہے اور دوسرا اداکارہے اور دونوں کا میڈیا کی سکرین پر زندہ رہنے کا میچ چل رہا ہے۔ ملک سے باہر بھاگنے کاان کا خاندانی مرض ہے۔ ہر چھ ماہ بعد یہ لوگ تازہ ہوا کے لئے بیرون ملک اپنے محلوں میں جانے کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں۔حکومت ان کی حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ان کے درد کے مطابق ان کا علاج ہوگا۔ ابھی درد چھپا ہوا ہے سامنے آئے گا تو قانون کی دوائی حالات کے مطابق دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ مجھے نکالنا چاہتے تھے۔۔شوکت عزیز صدیقی