ملکی برآمدات اور معاشی بحالی کا راستہ
وقاص عظیم
Stay tuned with 24 News HD Android App
وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت رواں سال 30 ارب ڈالرز کی برآمدات کا مقررہدف حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے وزارت تجارت کو اس بات کی امید ہے کہ رواں سال ملکی برآمدات 30 ارب ڈالرز کے مقررہ ہدف سے زیادہ رہیں گی ، ملکی برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کا کریڈٹ نگراں وزیر تجارت و صنعت ڈاکٹر گوہر اعجاز کو دیا جا رہا ہے ، نگراں دور میں ملکی برآمدات میں گذشتہ برس کے مقابلے میں دو ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا اگست سے فروری 2024 تک ملکی برآمدات 18 ارب 25 کروڑ ڈالرز رہیں گذشتہ برس اگست سے فروری تک برآمدات کا حجم 16 ارب 41 کروڑ ڈالرز تھا نگراں دور میں چین ، سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں ٹارگٹ کیا گیا نگراں دور میں چین کو برآمدات میں 46 فیصد اضافہ ہوا نگراں دور میں سعودی عرب کو برآمدات میں 27 فیصد اضافہ ہوا اس دوران خلیجی ممالک کو برآمدات میں 41 فیصد اضافہ ہوا .
رواں سال جولائی سے مئی تک 28 ارب 70 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی گئی ہیں گذشتہ برس جولائی سے مئی تک برآمدات ملکی برآمدات 25 ارب 36 کروڑ 8 لاکھ ڈالرز تھیں رواں سال برآمدات میں 2 ارب سات کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے نگراں حکومت سے قبل جولائی اور اگست میں ملکی برآمدات میں 6 فیصد سے زائد کمی ہوئی
موجودہ حکومت کا نگراں دور سے موازنہ کیا جائے تو موجودہ حکومت کے تین ماہ میں برآمدات میں کمی ہوئی ہے موحودہ دور میں مارچ اپریل اور مئی میں 7 ارب 71 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی گئیں ,نگراں دور میں دسمبر جنوری فروری اور مارچ میں 8 ارب 18 کروڑ ڈالرز کی برآمدا ت گئیں ,نگراں دور کے آخری تین ماہ کے مقابلے میں موجودہ دور میں برآمدات میں 48 کروڑ کی کمی ہوئی نگراں دور کے آخری تین ماہ میں گذشتہ برس کے مقابلے میں برآمدات میں ایک ارب 45 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا موجودہ حکومت کے تین ماہ میں گذشتہ برس کے مقابلے میں ایک ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا اکتوبر میں میں برآمدات 12.89 اور نومبر میں 7.7 فیصد اضافہ ہوا دسمبر میں 22.21 ، جنوری میں 24.81 اور فروری میں 18 فیصد اضافہ ہوا .
نگراں دور میں پاکستان کی برآمدات میں سالانہ پانچ ارب ڈالرز اضافے کا پلان پیش کیا جا چکا ہے جس کے تحت پانچ سال میں پاکستان کی برآمدات کو 100 ارب ڈالرز تک پہنچایا جاسکتا ہے اس پلان کے تحت نہ صرف پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ قرضوں میں بھی بتدیج کمی واقع ہوسکتی ہے ،
پاکستان کی برآمدات میں 60 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کا ہے ، جو 40 فیصد ملازمتیں ، روزگار فراہم کرتا ہے ، رواں مالی سال جولائی سے اپریل تک ٹیکسٹائل برآمدات 13 ارب 70 کروڑ ڈالرز رہیں جو گذشتہ برس کے مقابلے میں 14 فیصد سے زائد کم ہیں ، گذشتہ برس اسی عرصے میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات 15 ارب 97 کروڑ ٰڈالرز تھیں ۔ اس کی بنیادی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے ، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس وقت بجلی کا ایک یونٹ 70 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے ، نتیجتا پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیداوار میں 70 فیصد تک کمی آچکی ہے ، پاکستان میں ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بجلی دو گنا مہنگی ہے جب کہ جنوری 2023 سے صنعتوں کے لیے گیس 223 فیصد مہنگی ہوچکی ہے
بد قسمتی سے پاکستان چونکہ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس چکا ہے تو ہمارے سیکریٹری خزانہ ، صنعت و پیدوار، توانائی اور پیٹرولیم کے اعلی افسران کے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے ، ان اعلی سرکاری افسران نے ملکی صنعتوں کے بارے میں جان بوجھ کر غلط فہمی پیدا کررکھی ہے کہ صنعتوں کو سبسڈی نہیں دی جا سکتی ، یہ افسران آئی ایم ایف کے سامنے ملکی صنعتوں کی جانب سے دی جانیوالی 220 ارب روپے کی کراس سبسڈی کا کیس پیش نہیں کرتے اور نہ ہی وزیر اعظم کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا جاتا ہے ، کیونکہ صنعتکار مہنگی بجلی خرید کر گھریلو ، کمرشل اور دیگر صارفین کو اپنی جیبوں سے یہ سبسڈی فراہم کررہے ہیں
صنعتکار آئندہ بجٹ میں حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ملک کی تمام صنعتوں کو بجلی 9 سینٹ فی یونٹ پر فراہم کی جائے ، یہ کوئی سبسڈی نہیں ہے بلکہ صنعتوں پر ڈالے گئے کراس سبسڈی کے بوجھ میں کمی ہے ، جو کہ صنعتیں بجلی چوری ، لائن لاسز ، کیپسٹی پیمنٹ اور دیگر ٹیکسز کی مد میں ادا کر رہی ہیں ، ٹیکسٹائل سیکٹر کو 9 سینٹ فی یونٹ بجلی فراہم کرنے سے بجلی کی کھپت میں 1530 میگ واٹ سالانہ کا اضافہ ہوگا ، اس سے حکومت کو ایک ارب ڈالرز کی اضافی آمدن ہوگی ، جو کہ آئی ایم ایف کی ایک قسط سے زیادہ ہے ، صنعتوں کو بجلی 9 سینٹ فی یونٹ فراہم کرنے سے ملکی برآمدات میں سالانہ 9 ارب ڈالرز کا ااضافہ ہوگا ، آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق پاکستان کو اگلے 5 سالوں میں 25 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے ، جو کہ سالانہ 5 ارب ڈالرز بنتا ہے ، حکومت صنعتوں کو 9 سینٹ فی یونٹ پر بجلی فراہم کرکے یہ پانچ ارب ڈالرز آسانی سے کما سکتی ہے
صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو بجلی کا فی یونٹ 9 سینٹ فراہم کرنے سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں 51 کروڑ ڈالرز آمدن ہوسگی ، اس سے کیپٹو پاور پلانٹس کی فی یونٹ پیداواری لاگت 33 روپے سے کہیں کم ہوجائے گی اس سے مقامی گیس کی کھپت کم ہوگی اور ایل این جی کا درآمدی بل بھی کم ہوگا اگر ان تجاویز پر عمل درآمد کرلیا جائے تو پاکستان ہمیشہ کے لیے کشکول کو توڑ سکتا ہے ، اور آئی ایم ایف کے قرض سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے ، حکومت کو اس مقصد کے لیے ایکسپورٹ انڈسٹری کا الگ بجلی کا ٹیرف مقرر کرنا ہوگا ، جس سے تمام صنعتوں کو 9 سینٹ پر بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانی ہوگی اس ایک تجویز پر عمل درآمد کرنے سے وزیر اعظم شہباز شریف کو کسی ملک سے بھیک نہیں مانگنا پڑے گی بلکہ اس سے ملکی برآمدات اگلے پانچ سال کے دوران 50 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہیں ، اور اگر اس پالیسی کو لانگ ٹرم بنیادوں پر جاری رکھا جائے صنعتوں میں سات ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوسکتی اور سات لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے ، اب فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کرنا ہے کہ لوگوں کو روزگار دینا ہے یا انہیں بجلی کے بلوں پر ماہانہ ایک ہزار روپے سے 15 سو روپے کا ریلیف فراہم کرکے روزگار چھیننا ہے ۔