2 سال سےمیری زندگی مائیکرو اسکوپ کے نیچے ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت میں وفاقی حکومت نے کیس کی براہ راست سماعت نشر کرنے کی مخالفت کردی،جسٹس فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 سال سےمیری زندگی مائیکرو اسکوپ کے نیچے ہے، اب چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں لیکن حکومت خوفزدہ ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔عدالت میں وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیدی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست قابل قبول نہیں، نظرثانی درخواستوں کے دوران کوئی دوسری درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔عامر رحمٰن نے کہا کہ آئین کی کسی شق میں کھلی عدالت کا ذکر موجود نہیں، سپریم کورٹ کا صوابدیدی اختیار ہے وہ براہ راست نشریات کی اجازت دے یا نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی کیس میں آرٹیکل 184/3 کی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی، قانون میں کھلی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے، میڈیا پر نشر کرنے کا نہیں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عدالت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میڈیا کی آزادی کا تعلق براہ راست نشریات سے ہے۔سپریم کورٹ نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کے حق میں بات کی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ درخواست گزارکا موقف ہے پریس رپورٹنگ عوام تک حقائق پہنچانےکیلئے کافی نہیں ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کو علم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی بار سماعت ان کیمرہ بھی ہوئی ہے، برازیل نے تو کہہ دیا کہ ججزکے چیمبرز کی گفتگو بھی نشر ہوگی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت میں اس وقت 10 ججز ہیں، 6 دیگر ججزموجود نہیں، باقی معزز ججز کو سنے بغیر کیسے براہ راست نشریات کا حکم دے دیں؟ 10 ججز نے حکم دیا تو دیگر تمام ججز اس کے پابند ہوں گے۔
وفاق کے وکیل نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے کا یہ مطلب نہیں لوگ فیصلے ہوتے دیکھیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ فیصلہ غیرجانبدارانہ ہونا چاہیے۔شہری کاحق عدالتی کارروائی دیکھنا ہے تو انصاف گھر تک پہنچنا بھی اسکاحق ہے،انتظامی مشکلات ہر فورم پر ہوتی ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کھلی عدالتوں میں سماعت بھی اسی لئے ہوتی ہے کہ انصاف ہوتا نظر آئے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سماعت کے دوران کہاکہ 2 سال سےمیری زندگی مائیکرو اسکوپ کے نیچے ہے، اب چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں لیکن حکومت خوفزدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ یوٹیوب پر جارہے ہیں، ان کو اس پر بھی اعتراض ہے، شہزاد اکبر نے مئی2019 ء میں پریس کانفرنس کرکے میری کردارکشی کی، 2 سال گزر گئے اور اب شہزاد اکبر اتنے خوفزدہ ہیں کہ عدالت نہیں آتے۔جسٹس عیسیٰ کاکہنا تھا کہ یہ گلا پھاڑ کر میرے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں، حکومت نے میڈیا کو تباہ کردیا۔یہ پراپیگنڈسٹ اور کنٹرولڈ میڈیا چاہتے ہیں جو ان کی طرف کی بات کرے۔اس موقع پر سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔