تحریک عدم اعتماد ۔172سے زیادہ ووٹ لیں گے۔اپوزیشن کا دعویٰ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم ارکان کو ایوان میں لائینگے اور 172سے زائد ووٹ لیں گے ،تحریک انصاف کے اپنے لوگ بیزار ہیں ،نمبرز اور نام بھی بتادیں ؟عدم اعتماد ضرور کامیاب ہوگی اور عوام کو نجات ملے گی ، تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ ایک روز پہلے کیا تھا جیسے خفیہ رکھا گیا تھا ،یہ سب کوئی پلان کے تحت نہیں ہورہا ،قدرت ہمارے اچھے دن لے آئی تو سب مل کر بیٹھ گئے۔ منگل کو سابق صدرآصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے تاخیر سے پریس کانفرنس شروع کر نے پر معذرت کرتے ہوئے کہاکہ آصف علی زر داری کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کو انتظار کر نا پڑا امید ہے آپ اس پر ناراض نہیں ہونگے ۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اور مسلم لیگ(ن) اور ہمارے ساتھ منسلک اتحادی پارٹیوں کی طرف سے ہم نے مل کر مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ منگل ہم تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کروائیں گے۔انہوںنے کہاکہ ہم اس بات کو خفیہ رکھا تھا اور اس کی سب نے پاسداری کی اورتمام جماعتوں نے ریکوزیشن اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنے ارکان سے دستخط لئے اور ہم نے اس کو جمع کرا دیا ہے۔شہباز شریف نے کہاکہ پونے چار سال بعد اس تحریک عدم اعتماد کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ اس سلیکٹڈ حکومت اور وزیراعظم نے جو کچھ اس ملک کے ساتھ معاشی، سماجی، معاشرتی حوالے سے کردیا ہے اس کی نظیر پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، قرضے لے کر ملک کے 22کروڑ عوام اور ہماری نسلوں کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور ان کھربوں کے عوض بھی اس ملک میں ایک بھی نئی اینٹ لگی ہوئی نظر نہیں آتی۔مسلم لیگ(ن) کے صدر نے کہاکہ ان کو صرف ایک کام آتا ہے کہ یہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے منصوبوں پر لگائی گئی تختیاں اکھاڑ کر لگا رہے ہیں اور خارجہ محاذ پر ان کی بدترین ناکامی ہے کہ پاکستان کے وہ دوست جنہوں نے اچھے اور برے وقتوں میں پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا، انہوں نے ان کو ناراض کردیا۔انہوں نے کہا کہ جس طرح سے چین کے حوالے سے سی پیک کو نشانہ بنایا گیا، حکومت میں آنے سے قبل عمران خان اور ان کے موجودہ وزرا نے کیڑے نکالے، کرپشن کی باتیں کیں، چین پر بے الزامات لگائے اور تنقید کی، چین جیسے دوست کو ناراض کہاں کی خارجہ پالیسی تھی۔انہوںنے کہاکہ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ہے جبکہ میلسی میں تقریر کے دوران انتہا کردی اور بیٹھے بٹھائے ہمارے یورپی یونین اور دوسرے ممالک کو ناراض کردیا، سب کو پتہ ہے کہ پاکستان یورپ اور شمالی امریکا میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور آپ نے بیٹھے بٹھائے کارتوس چلا دیے، انہوں نے جو زبان استعمال کی وہ انہیں زیب نہیں دیتی۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اپنی ذات کےلئے نہیں بلکہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کی خواہش پر کیا جو اس حکومت کے خلاف دست با دعا ہے لہٰذا اس کو غیرملکی سازش قرار دینا احمقانہ اور بات اور بے بنیاد الزام ہے۔انہوں نے حکومتی بیانیے کے جواب میں سوال کیا کہ کیا یہ مہنگائی غیرملکی سازش سے ہوئی، کیا بیروزگاری، مہنگی گیس خریدنا، قرض لے لے کر ملک کا بیرا غرق کرنا، مہنگی ترین بجلی پیدا کرنا اور پوری اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دینا بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی ہے؟۔انہوںنے کہاکہ ہم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کی خواہشات اور دعاو¿ں کا عکاس ہے، آج ہم نے تحریک عدم اعتماد اسپیکر کے دفتر میں جمع ہو چکی ہے۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں اس حکومت سے کوئی خوش فہمی نہیں تھی، جب سے انہوں نے این جی اوز کے ذریعے سے مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی تو ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستانی نہیں ہے، یہ کسی بیرونی ایجنڈے کا ایجنٹ ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے 2018 انتخابات کے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک متفقہ مو¿قف تیار کر لیا تھا کہ الیکشن ناجائز ہوا ہے، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے اور ہم اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے بعد تحریک کا آغاز ہوا،انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی ریلیوں اور مارچ سے ان سلیکٹڈ حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا ہے، ہم قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں، ہم نے جو کہا تھا وہ ایک ایک بات حقیقت بن کر عام آدمی کے سامنے موجود ہے اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک انحطاط کی طرف گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ جب 17-2018 کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا جو تو شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور اگلے سال سالانہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے چھ فیصد لگایا گیا تھا تاہم یہ حکومت ہماری سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے لے آئی، ملک کی معیشت کمزور ہو گئی اور معیشت کمزور ہونے کے بعد اب کوئی ملک آپ کو پیسہ دے کر ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ آج اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں، ان کی بساط لپٹ چکی ہے اور اب کوئی آئیڈیل باتیں ان کے لیے سودمند نہیں ہوسکتیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ اپوزیشن ملک کے مفاد پر متحد ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت چین کے ساتھ رابطے میں رہی اور سی پیک کی طرف بڑھ رہی تھی، مسلم لیگ کی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ پیپلز پارٹی نے غلط کیا بلکہ فروغ دیا اور ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھی اور چین جیسے ملک کے ذریعے دنیا سے تجارت کا شاہراہ دیا، ہم نے اتنے بڑے دوست کو مایوس کردیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں، جکسی ادارے سے بھی کوئی دشمنی نہیں تاہم ان کے فیصلوں اور رویوں سے اختلاف کا جب بھی موقع آیا ہے تو اس کو چھپایا بھی نہیں ہے، برملا اور بصداحترام اختلاف رائے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی ہے، ہم کامیابی پر یقین رکھتے ہیں اور تحریک عدم اعتماد ان نااہلوں اور نالائقوں کے خلاف کامیاب ہو گی اور قوم عنقریب نجات کی خوشخبری سنے گی۔
دوران پریس کانفرنس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہم اپوزیشن کے دوستوں نے سوچا کہ اب نہیں تو کبھی نہیں کیونکہ یہ سلسلہ چلتا جا رہا ہے اور یہ اتنا خراب ہو جائے گا کہ اس کو کوئی بنا بھی نہیں سکے گا۔انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم سب مل کر بیٹھے، مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی اکیلی جماعت پاکستان کو اس مشکل سے نہیں نکال سکتی، ہمیں مل کر ساتھ کام کرنا پڑے گا اور ان دوستوں کو بھی دعوت دیں گے جو ہم سے دور ہیں، ہم سب مل کر پاکستان کو اس مشکل سے آزادی دلائیں گے۔ایک سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ماضی میں اگر نقصان ہوا ہے تو ہمیں ہی ہوا ہے ، اس وقت پورے اعتماد کے ساتھ انشاءاللہ کامیابی ملے گی ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم اراکین کو ایوان میں لائیں گے اور 172سے زائد ووٹ لیں گے ،نمبرز اور نام بھی بتا دوں ؟، صرف ہم بیزار نہیں ہیں ، ان کی اپنی پارٹی بیزار ہیں ، ان کے اپنے دوست بیزار ہیں ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ غلام اسحاق میرے خلاف تھا ، اس وقت اسٹیبلشمنٹ میر ے خلاف تھی ، ہم نے مقابلہ کیا اور بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی مگر غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی تھی ، اب ہم نے صدر سے یہ اختیارات لے لئے ہیں ۔ایک سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم سیاسی لوگ ہیں ، جمہوری قوت ہیں ، یاد رکھیں جمہوری رویئے نہ انتقام کے حوالے سے مرتب ہوتے ہیں نہ انقلاب کے حوالے سے مرتب ہوتے ہیں ، تدریجی اصلاحات کی بنیاد پر ہمیں آگے جانا ہوتا ہے ،آپ نے جن اطراف کی طرف اشارہ کیا ہے یہ سب ہمارے مسائل ہیں ، ہم اس ملک میں اداروں کی اصلاحات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ، آئین کے مطابق ٓگے بڑھنا چاہئیں گے۔حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ملاقاتوں کے حوالے سے سوال پر انہوںنے کہاکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب سے ملاقات کریں اور ان کو قائل کریں حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے جن ضمیر جاگ چکے ہیں ہم انہیں کہیں گے آگے آئیں ، تبدیلی کے نام پر جو بربادی ہوئی ہے اس سفر کو ختم کریں اور آگے بڑھیں ، انہوںنے کہاکہ سیاسی نظام کے تحت ہم کوشش کررہے ہیں انشاءاللہ ہمیں کامیابی ملے گی ۔ایک سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جس طرح ہم عدم اعتماد کی منزل پر باہمی مشاورت اور باہمی اعتماد کے ساتھ پہنچے ہیں ، وہ ایشوز جو عدم اعتماد کے بعد آنے والے ہیں وہ شاید طے بھی ہوچکے ہوں اگر طے نہیں ہوئے تو آگے ہو جائینگے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ جب قدرت اچھا چاہتی ہے تو اچھا ہوتا رہتا ہے ، یہ قدرت کا کمال ہے ، ہم نے کوئی پلان نہیں کیا تھا کہ 23مارچ تک پہنچیں گے ، ہم نے بسم اللہ کی اللہ نے ہماری سنی ۔ایک سوا ل پر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ کہا جارہا تھا مولوی صاحب آرہی ہے ، مدرسوں والے آرہے ہیں ، کیارہ پندرہ سے اٹھارہ لاکھ لوگ سارے مدرسوں سے آئے ہیں ،ماضی کی میں دیا گیا دھرنا تاریخ کا حصہ رہے گا اور اہداف حاصل کرلئے تھے ۔ایک سوال پر شہباز شریف نے کہاکہ ہر پارٹی کو اپنی رائے دینا کا پورا حق ہے ، میری پارٹی اپنی رائے پیش کرےگی ،آگے جو بھی فیصلہ ہوگا مشاورت سے ہوگا ۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جب اٹھارہویں ترمیم کا مسئلہ آیا اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہم سب بیٹھے ہیں ،سب نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ، اب بھی ہم ماشاءاللہ سیاست کے بالغ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں نابالغ ایک ہی ہے جس کوہم باہر کررہے ہیں ۔ایک سوا ل پرانہوںنے کہاکہ جب ہم نے پی ڈی ایم بنائی تو اس کا 25نکاتی اعلامیہ جاری ہوا جس میں عدم اعتماد اور استعفے کا معاملہ شامل تھا ، میڈیا نے بڑا ایشو بنا دیا تھا ،اب بھی جو کچھ کررہے ہیں وہ اعلامیہ کے مطابق کررہے ہیں ۔اس سوال پر کہ ”وزیراعظم کہتے ہیں عدم تحریک ناکام ہوتی ہے تو آپ کو چھوڑیں گے نہیں ” جس پر آصف علی زر داری نے جواب دیا کہ آپ کو پتہ ہے یہ ہاتھ میرے آزمائے ہوئے ہیں اور مولانا فضل الرحمن نے جواب دیاکہ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے ، یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔ مائنس بزدار پھر بات چیت ۔۔ترین گروپ کا بڑا اعلان
#GameOverIK#AwamiMarch@AAliZardari https://t.co/OeZcY3jpZX
— PPP (@MediaCellPPP) March 8, 2022