پاکستان میں کن وزرائے اعظم کیخلاف عدم اعتماد لائی گئی؟ ۔کتنی کامیاب ہوئیں؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے، قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں اگر 172 ووٹ پڑگئے تو عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا۔حزب اختلاف کو امید ہے کہ ان کی لائی گئی تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں باآسانی کامیاب ہوجائےگی اور 172 سے زائد ووٹ حاصل کرلے گی۔خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمانی تاریخ اس قسم کی سیاسی ہلچل سے بھری پڑی ہے اور یہ تیسری بار ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی ہے،اگر تحریک کامیاب ہوگئی تو عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جوکہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے باعث ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوں گے،اس سے قبل پاکستان کے2 منتخب وزرائے اعظم اپوزیشن کی تحریک عدم اعتمادکا سامنا کرچکے ہیں اور دونوں مرتبہ ہی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تاہم قومی اسمبلی میں اسے 12 ووٹوں سے رد کردیا گیا۔237 ارکان کے ایوان میں بے نظیر بھٹو کو ہٹانے کےلئے 119 ووٹ درکار تھے تاہم تحریک کو 107 ووٹ حاصل ہوسکے، وزیراعظم نے 125 اعتمادکے ووٹ حاصل کیے جب کہ 5 ارکان غیر حاضر تھے۔دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد اگست 2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ہٹانے کےلئے لائی گئی تاہم اس بار بھی اپوزیشن کامیاب نہ ہوسکی۔342 ارکان کے ایوان میں شوکت عزیز کو ہٹانے کےلئے 172 ووٹ درکار تھے تاہم عدم اعتماد کی تحریک کو 136 ووٹ مل سکے اور شوکت عزیز 201 ووٹ لے کر وزارت عظمیٰ کا عہدہ بچاگئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی سابق وزرائے اعظم کی طرح ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے۔قومی اسمبلی کی لیگل برانچ کے مطابق اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اسپیکر قومی اسمبلی 14 روز میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔لیگل برانچ قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ریکوزیشن کے مطابق اسپیکر اب کسی بھی وقت اجلاس بلا سکتے ہیں، اجلاس بلانے کی حد 14 روز یعنی 22 مارچ بنتی ہے۔لیگل برانچ حکام کا کہنا ہےکہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے 3 سے7 روز کے درمیان اس پر ووٹنگ کرانی ہوگی، اس کے علاوہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اجلاس قومی اسمبلی ہال میں ہی ہوگا،قومی اسمبلی کا اجلاس سینٹ ہال یا کسی اور مقام پر بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں۔وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع