کیا امریکا میں ٹک ٹاک کے استعمال پر مکمل پابندی لگ سکتی ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) امریکی حکومت ٹک ٹاک کے چینی مالکان سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اسے فروخت کر دیں یا پھر پابندی کا رسک مول لینے کیلئے تیار رہیں۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کئی ممالک اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پتہ نہیں ایپ کے ذریعے اکٹھے کیے گئے صارفین کے ڈیٹا کا چین کس طرح استعمال کرے گا۔
لیکن ایپ پر پابندی لگانے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور اس سے جڑے کئی سوال ہیں۔
ٹک ٹاک اسی طرح کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے جس طرح دوسری ایپس لیکن امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھ لگ جائے گا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا امریکی شہریوں کی جاسوسی کرنے یا پھر پروپیگینڈا پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اجنبی فون کالز، واٹس ایپ نے زبردست فیچر متعارف کرا دیا
امریکہ میں پہلے ہی سرکاری ڈیوائسز پر ٹک ٹاک ڈاؤن لوڈ کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین نے بھی یہی اقدام اٹھایا ہے۔ انڈیا 2020ء میں اس پر پابندی لگا چکا ہے۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ اسی طرح کام کرتا ہے جیسے کہ دوسری سوشل میڈیا کمپنیاں اور اس کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی چینی حکام کی جانب سے ڈیٹا ٹرانسنفر کرنے کے حکم پر عمل نہیں کرے گا۔
ہر تین میں سے ایک امریکی ٹک ٹاک استعمال کرتا ہے اور اتنی مقبول ایپ پر پابندی لگی تو یہ امریکہ میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہوگا۔
اس کا سب سے ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ ایپل اور گوگل ایپ سٹورز، جہاں یہ دستیاب ہے، انھیں حکم دیا جائے کہ اسے اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹائیں۔ اس طرح لوگ اسے ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکیں گے لیکن جن کے فونز پر یہ پہلے سے موجود ہے وہ تو رہے گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایپ کو اپ ڈیٹس موصول نہیں ہوں گی اور صارفین کو مسائل کا سامنا ہونے لگے گا۔
جب انڈین حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی تھی تو اس نے ڈاؤن لوڈز کو روک دیا تھا اور انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کمپنیوں سے بھی کہا تھا کہ اسے بلاک کردیں۔
اس سے انڈیا بھر میں بیشتر آئی ایس پیز کے ذریعے ٹک ٹاک ایپ یا ویب سائٹ تک رسائی مشکل ہوگئی تھی تاہم اس وقت بھی دوسرے طریقے موجود تھے۔
خاص طور پر اس ایپ کی مختلف شکلیں جنھیں لوگ اپنی موبائل ڈیوائسز میں تبدیلیاں کر کے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
بعض لوگ ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک (وی پی این) کا استعمال کرتے ہیں جس سے آپ کی ڈیوائس اور انٹرنیٹ سے جڑے ایک دوسرے کمپیوٹر کے درمیان ایک سکیور کنیکشن بن جاتا ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک یا خطے میں ہیں۔
لیکن پابندی سے بچنے کیلئے یہ بھی کافی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اب چیٹ جی پی ٹی لوگوں کیلئے گھر بھی تلاش کرے گا
ٹک ٹاک صارف کے سِم کارڈ اور آئی پی ایڈریس کے ذریعے اس کے مقام سے متعلق معلومات حاصل کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا نمبر +1 سے شروع ہوتا ہے تو ٹک ٹاک کو معلوم ہے کہ آپ امریکہ میں ہیں اور وہ آپ کی ڈیوائس کی ایپ تک رسائی کو بلاک کرسکتا ہے۔
لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا ٹک ٹاک صارفین کو بلاک کرے گا، وہ حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کرسکتا ہے اور اس کے بجائے ہوسکتا ہے کہ وہ امریکا میں لوگوں کو اس وقت تک ایپ استعمال کرنے دے جب تک کہ وہ مختلف طریقوں سے کرسکتے ہیں۔
چین نے امریکا پر غلط معلومات پھیلانے اور ٹک ٹاک کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ جب امریکا نے فیڈرل ملازمین کو اپنی سرکاری ڈیوائسز سے اس ایپ کو ہٹانے کا حکم دیا تھا تو چین نے اسے شدید ردعمل قرار دیا تھا۔
چینی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہا تھا ’امریکہ جیسی دنیا کی سُپر پاور اپنے بارے میں کتنی ہی غیریقینی کا شکار ہو سکتی ہے کہ وہ نوجوانوں کی پسندیدہ ایپ سے اس طرح خوفزدہ ہے؟‘