پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ:اٹارنی جنرل،ن لیگ کی فل کورٹ بنانے کی درخواست،سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل سے متعلق ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم نے کیا۔عدالت نے ریکارڈ دوبارہ طلب کرلیا جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان،پاکستان مسلم لیگ ن نے فل کورٹ بنانے کی درخواست کردی ،عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔
پیر کے روز سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصورعثمان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ،وکیل مسلم لیگ ن صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی درخواست میں فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست کو ابھی نمبر نہیں الاٹ نہیں ہوا۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہے اس لیے پی ٹی آئی کی جانب سے میں موجود ہوں۔
توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائےگا:اٹارنی جنرل
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے، عدالتی اصلاحات کے قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔
فل کورٹ کے لیے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے، سپریم کورٹ پریکٹس رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ سوال یہ ہےکہ کیا ایسی قانون سازی کے اختیارات ہیں یا نہیں،ترمیم کا سوال نہیں ہے۔ جسٹس مظاہرنقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی کوئی قانون سازی ہوئی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1973 تک رولز بنانے کے لیے صدرکی اجازت درکار تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اس لیے فل کورٹ سنے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ہم ہر وقت معمول کے مطابق اپنی نوعیت کے پہلے کیسز سنتے رہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے،کیا حکومت اس کیس میں فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے، یہ تعین کیسے ہوگا کہ کونسا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے۔
’فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہوگا‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1996 سے عدلیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں، بظاہریہ حکومت کا کیس نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے؟ عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے؟ اٹارنی جنرل نےکہا کہ یہ درست ہےکہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ رولزبنانےکا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر کسی 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے؟ فل کورٹ تو اپنے رولز بنا چکی ہے
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہےکہ فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیا آپ کا مدعا یہ ہےکہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے؟جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائےگئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے سیکشن4 کے مطابق کمیٹی کا بنایا گیا 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنےگا، جب پارلیمنٹ خود اپنے ایکٹ میں5 رکنی بینچ کہہ رہی ہے تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے تو اس قانون پرعمل درآمد سے روک رکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟ پارلیمنت کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزورپڑگئی ہےکہ یہاں کتنے ججزبیٹھے ہیں۔ فل کورٹ کی استدعا کیس کی مناسبت سے کی جاسکتی ہے، قانون میں کم سےکم 5 ججزکا لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل یا کابینہ کیوں نہیں؟
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کےخلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائی کورٹس بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائی کورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی؟
جسٹس مظاہرعلی کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے، فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہےکہ بینچ حکم امتناع میں اپنا موقف دے چکا ہے۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فل کورٹ میں60 اور سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں اس پربات نہیں کروں گا۔
فل کورٹ تشکیل دینےکی درخواست قابل سماعت ہونے پربھی سوال ہے؟:جسٹس عائشہ ملک
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانےکی پابند ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نےکہا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنا دے تو کیا پوری ہائی کورٹ مقدمہ سنے گی؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گےکہ فل کورٹ بنےگی؟ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانےکا حکم دے سکتا ہے؟
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ فل کورٹ تشکیل دینےکی درخواست قابل سماعت ہونے پربھی سوال ہے؟ کیا ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانےکی گزارش کرسکتے ہیں۔
جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ درخواست میں وفاق نے چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رکھی ہے، اس طرح کی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاق کی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن سمجھ چکے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہ کہ آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی تھیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا تھا، نو رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں،۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی جج پراعتراض بھی ہو تو فیصلہ جج نےکرنا ہوتا ہےکہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں، مستقبل کے لیے تعین کرنا ہےکہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینےکا کہہ سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح یا عدالت کی آزادی کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتا ہے، 20 سال بعد شاید زمینی حقائق اور آئین مختلف ہو، استدعا ہے کہ عدالت فل کورٹ بنائے۔ سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت تین ہفتو ں کیلئے ملتوی کردی گئی ،عدالت نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ دوبارہ طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،سپریم کورٹ نےگزشتہ سماعت میں تمام فریقین کو تحریری جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، عدالت نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ کی کارروائی اور قائمہ کمیٹیوں کا ریکارڈ بھی طلب کر رکھا ہے۔
ضرور پڑھیں :’یہ سڑکوں پرآیا تو پہلے اس کا علاج کریں گے پھر الیکشن کریں گے‘