(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 121 مقدمات کے اخراج کی درخواست پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور انویسٹی گیشن ٹیم کو تفتیشی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف 121 مقدمات پر کارروائی روکنے سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس انوار الحق، جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس طارق سلیم اور جسٹس امجد رفیق بینچ میں شامل تھے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو عمران خان کی رہائش پر جا کر تفتیش کرنے کا کہا، قانونی طور پر ملزم کو تفتیشی کے سامنے پیش ہونا قانون کا تقاضا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس کیس کو چھوڈ دیں مگر کیا کوئی بیمار ہو تو وہ کیسے پیش ہوسکتا ہے، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ کسی خاص کیس میں خاص رویہ اختیار نہیں ہونا چاہیئے۔
عدالت نے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس میں کوئی بھی فرشتہ نہیں، عدالت کیلئے کوئی کیس خاص نہیں ہوتا بلکہ سارے کیس ایک طرح کے ہوتے ہیں۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی سے تعاون کیا جارہا ہے، عمران خان شامل تفتیش ہوچکے ہیں، جےآئی ٹی کو رسائی دی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں جلدانتخابات ہی مسائل کاحل ہیں،عمران خان
عدالت نے پوچھا کہ جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کہاں ہے، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ رپورٹ ابھی تک نہیں مل سکی، تاخیر ہونے پر معذرت خواہ ہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے گھر جو ٹیم گئی اس میں تمام عملہ موجود تھا، وہاں باقاعدہ سوالات کیے گئے، ان کا مقصد یہ ہے کہ کورٹ پروسیڈنگ کو کسی طرح روکا جائے۔
جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک کیس میں کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو لنک پر لیا جائے اور دوسرے میں کہہ رہے ہیں کہ تمام کیس یکجا کر دیے جائیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 1970 کے بعد سے پولیٹیکل ویکٹیمائزیشن جاری ہے، پنجاب اور اسلام آباد میں درج مقدمات کو یکجا کر دیا جائے، روز عمران خان گھر سے نکلتے ہیں ضمانت کرانے، انہوں نے ایک کیس میں ضمانت کنفرم ہونے کے بعد ایک اور کیس بنا دیا، سپریم کورٹ میں 70 سال کی عمر اور بیمار شخص کو ریلیف دینے کی مثال موجود ہے۔
جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ آپ جو یہ مثال دے رہے ہیں اس کا حوالہ دیں۔
عمران خان کے وکیل نے عدالتی حوالہ جات سے متعلق دستاویزات کی کاپی لاہور ہائیکورٹ میں پیش کردی۔
ویڈیو لنک کے ذریعے کیس میں شامل ہونے کے حوالے سے دستاویزی کاپی پیش کی گئی۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل جاری اقوام متحدہ کے ضوابط ہیں کہ ویڈیو لنک کے ذریعے ملزم کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ کسی موجودہ کیس کی مثال دے سکتے ہیں؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ جی اس میں پچھلی مثالیں ضرور موجود ہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ 140 مقدمات درج ہو چکے ہیں، کسی انسان کیلئے تمام مقدمات میں پیش ہونا ممکن نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے ایک دن کی درخواست منظور بھی کی تھی۔
سرکاری وکیل کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعےعمران خان کے شامل ہونے کی مخالفت میں دلائل جاری رہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے واضح جواب ہی نہیں دیا کہ کتنی ٹوٹل ایف آئی آر درج ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ہم نے کیسسز کی تعداد سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی تھی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کیس آگے بڑھے۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان کی زیر صدارت لاہور کے ٹکٹ ہولڈرز کا اجلاس، اندرونی کہانی سامنے آگئی
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ملزم تھانے آکر ہی شامل تفتیش ہوں۔
جسٹس انوارالحق پنو نے کہا کہ یہ بھی کہاں لکھا ہے کہ جہاں آپ موجود ہیں ملزم وہی پر ہی ضرور آئے۔
عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور انویسٹی گیشن ٹیم کو تفتیشی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل کو انویسٹی گیشن رپورٹ جمع کرانے کا موقع فراہم کر دیا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ یہ کیسز کی تعداد سے متعلق درست اعداد و شمار نہیں دے رہے، مقدمات کی تعداد سے متعلق تو صحیح بتائیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم تو پہلی مرتبہ عدالت کے کہنے پر عمران خان کے گھر گئے، انویسٹی گیشن کے افسر کو تو پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ان کی مرضی سے تفتیش کرنے جائے۔
جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ تو بتائیں کہ کون سے کیس میں اب تک انویسٹی گیٹ کر چکے ہیں، جمعے کے روز تک جواب جمع کروا دیں۔