اسٹیج سے وابستہ ہر 10 میں سے 6 اداکارائیں اولاد سے محروم،ایسا کیوں؟

رپورٹ : وسیم شہزاد (ملتان) | تعلیم بڑھے گی پڑھی لکھی اداکارائیں تھیٹر کا رخ کرینگی تو اس مشترکہ مسئلے کو حل ممکن ہو سکے گا جسکے لیے آرٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔

Nov 08, 2022 | 12:15:PM
 آرٹسٹ ایسوسی ایشن , پنجاب , اداکارہ ,ڈاکٹر آئمہ خان,سٹی پولیس آفیسر
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

        فنکار ہمارے معاشرے کا ایک ایسا طبقہ ہیں جنہیں حساس کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ، اگر بات خواتین فنکاروں  کی ہو تو انہیں میں  حساس ترین کہوں گا ،  کیونکہ وہ ایک فنکار ہونےسے پہلے ایک ماں، ایک بہن ، ایک بیوی ، اور ایک بیٹی کا کردار بھی دنیا کے اسٹیج پر ادا کر رہی ہوتی ہے ، مگر جیسے ہی وہ اداکارہ شوبز کے اسٹیج پر قدم رکھتی ہے ماں ، بیوی، بہن اور بیٹی کے رشتے اور حقیقی محبت کھو چکی ہوتی ہیں، کیوں کہ معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے بیٹیاں تو کوسوں دور کی بات بیٹوں کو بھی اداکار نہیں بنانا چاہتے ۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی خاتون اپنے رشتوں کو اپنی مرضی کے برعکس پس پشت ڈال کر اس فیلڈ میں آ بھی جائے تو  اسے سہارا دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں مگر وہ ایک ایسا سہارا ہوتا ہے ۔ جو کسی مقصد کے تحت اس اداکارہ کے درد کا مداوا کر رہا ہوتا ہے، بس پھر یہ سہارے کچھ عرصہ چلنے کے بعد مقصد کا حصول کرتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں اب ان  سہاروں سے ٹھکرائے جانے اور چند ٹھپے جمع کرنے کے بعد وہی اداکارہ  پھر سے انہی رستوں کی تلاس میں نکل جاتی ہے جو اپنی خواہشات کے حصول یا با امر مجبوری چھوڈ چکی تھی مگر اس بار ان رشتوں میں ایک رشتہ جمع ہو چکا ہوتا ہے جو کہ اولاد ہے ۔

 
پاکستان میں پاکستان آرٹسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے 2019 میں پنجاب کے تھیٹرز میں کیے جانے والے سروے کے مطابق ہر دس میں سے 6 اداکارائیں اولاد سے محروم ہیں ، جن کی بنیادی وجہ جہاں سوسائٹی میں مردوں کا انکی جانب اولاد کے حوالے سے رجحان کم ہے وہی ان اداکاراوں کا فیلڈ میں آتے وقت اپنی زات میں ترمیم بھی شامل ہے ، جوانی کے ڈھلنے اور اولاد کی خواہش ان اداکاراؤں کا مشترکہ مسئلہ ہے جس میں پاکستان کی چند ایک بڑی اداکارائیں بھی شامل ہیں جن کا نام شامل کرنے کی ان اداکاراؤں نے اجازت نہیں دی ، صدر آرٹسٹ ایسوسی ایشن پاکستان رمضان شہزاد کا کہنا ہے کے وہ اپنے 35 سالہ تجربے میں درجنوں ایسی اداکاراؤں سے ملے ہیں جو  بے اولادی کا شکار ہیں ۔پاکستان بھر میں بیشتر اسٹیج اداکارائیں ابھی بھی اس کرب سے گزر رہی ہیں ۔
 ضرور پڑھیں : عمران خان کی بلیم گیم کا حل
ایسا ہی کچھ ملتان کی معروف ادکارہ و شاعرہ سٹار ڈاکٹر آئمہ خان کا مسئلہ ہے ، جنہوں نے اپنی شباب و فن سے تھیٹرو فنکشن سے  کروڑوں روپے مجرے و مشاعرے کے زمرے میں کمائے ، شاہانہ زندگی ، بڑی گاڑی ، بنگلہ و ملازم سب کچھ موجود ہونے کے ساتھ ساتھ محبت کا بھی حصول ممکن کر لیا مگر کمی ہے تو صرف اولاد کی ، معروف اداکارہ نے مجھے چند ماہ قبل انٹرویو میں آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا تھا کہ بس یہ سب کچھ لے کر بھی اگر مجھے اولاد جیسا تحفہ کوئی عطا کرے تو میں سوچنے کا وقت بھی نہ مانگوں۔


اولاد کے حصول کے لیے اداکارہ ڈاکٹر آئمہ خان نے تھیٹر کو 9 ماہ کے لیے خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا اور حمل کی افواہ پنجاب بھر کے تھیٹرز میں پھیلا دی ، 9 ماہ مکمل ہونے کے بعد اداکارہ آئمہ خان نے اولاد ہونے کا ڈرمہ رچایا لیکن اولاد کو میڈیا کے بارہا اسرار کے باوجود سامنے دکھایا نہیں گیا۔
 یہ  راز تب کھلا جب ملتان پولیس نے بدھ کے روز ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے مقامی اسٹیج اداکارہ ڈاکٹر آئمہ خان ،ان کے شوہر مدثر اور بہنوئی مظفر کو دہلی گیٹ، ملتان سے ایک کمسن بچے نقیب اللہ  کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق ڈھائی سالہ نقیب اللہ ولد میاں گل ملتان کے علاقے فاروق ٹاؤن دہلی گیٹ کی کڑی جمنداں گلی سے لاپتہ ہوا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ میاں گل نامی شخص نے ابتداء میں اپنے بیٹے کو خود تلاش کیا، لیکن ناکامی پر پھر پولیس سے رجوع کیا گیا۔  پولیس کو دی گئی شکایت میں گل میاں نے کہا کہ اس کا کمسن بیٹا قریبی دکان پر گیا تھا۔ اس دوران دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اسے اغوا کرلیا۔ چنانچہ متاثرین کی شکایت پر دہلی گیٹ پولیس نے دونوں نامعلوم اغوا کاروں کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔

اس موقع پر ملتان سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) خرم شہزاد حیدر نے واقعے کا نوٹس بھی  لیا۔ انہوں نے ملزمان کا سراغ لگانے اور لڑکے کی بازیابی کے لیے 12 رکنی پولیس ٹیم تشکیل دی۔ پولیس ٹیم نے علاقے میں کلوز سرکٹ ٹی وی (سی سی ٹی وی) کیمروں کی فوٹیج اکٹھی کی۔ کیس کی مکمل تفتیش کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ اسٹیج اداکارہ ڈاکٹر آئمہ خان، اس کے شوہر مدثر اور بہنوئی مظفر بچے کو اغوا کرنے میں ملوث تھے۔ جس پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے اداکارہ آئمہ خان کے گھر پر چھاپہ مار کر بچے کو بازیاب کرالیا اور تینوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کی جانب سے بدھ کے روز سی پی او کے دفتر میں منعقدہ ایک تقریب میں بچے کو اس کے والدین کے حوالے کر دیا۔ تفتیش کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ایک پولیس ذرائع نے بتایا کہ اسٹیج اداکارہ نے چار سال قبل رینالہ خورد کے رہائشی محمد مدثر سے شادی کی تھی تاہم وہ بے اولاد تھی۔ یے انکی پانچویں شادی تھی۔

 ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ وہ اس شادی پر بھی حاملہ نہیں ہو سکتی ، ذرائع نے مزید کہا کہ اداکارہ اتنی بے چین تھی کہ اس نے اپنی بھابھی کو 500,000 روپے دیے اور اس سے کہا کہ وہ کسی بھی طرح سے اپنا بچہ گود دے دے ، مگر وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ لہذا آئمہ خان کی اس ضد پر مجبور ہو کر اس کے شوہر اور بہنوئی نے دہلی گیٹ کے علاقے سے کم عمر لڑکے نقیب اللہ کو اغوا کرلیا۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اداکارہ کی اولاد کے لیے بے چینی دیکھتے ہوئے اسٹیج اداکارہ کو ضمانت پر رہا کر دیا جبکہ انکے شوہر اور دیور تاحال گرفتار ہیں پولیس کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی واردات  اوکاڑہ میں بھی ہوچکی ہے۔ جسکی تحقیقات کے لیے ان سے تفتیش متوقع ہے ۔ تاہم بچے کی بازیابی پر والدین نے پولیس حکام کا شکریہ بھی ادا کیا۔

 آئمہ خان کی جانب سے نقیب اللہ کو اغواء کرنے کے معاملے پر شوبز حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہونے لگ گئی ، جنوبی پنجاب کے تھیٹرز میں جہاں یے موضوع تاحال خاص اہمیت کا حامل ہے وہی عام شہریوں میں اداکارہ کے اس عمل سے شدید غم و غصہ بھی پایا جا رہا ہے ، جس سے نفرت کا عنصر مزید بڑھ رہا ہے۔


ہمارے آباو اجداد تھیٹر سے جڑے رہے موجودہ دورمیں تھیٹر سمیت تھیٹر اداکاراوں کو اچھا کیوں نہیں سمجھا جا رہا ؟

معروف ڈارمہ رائٹر محمد مصطفے کہتے ہیں پہلے ہی اسٹیج اداکاراوں کو ہمارے معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، رہی سہی کسر اداکارہ کے اس عمل سے مزید اداکاراوں کو بھی خوف لا حق ہو گیا ، وہ کہتے ہیں  فن کی قدر اس وقت تک رہی کے جب تک فن فنکاروں کے ہاتھ میں تھا ، جیسے ہی فن کو فناکاروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو لچر پنہ اس کا حصہ بن گیا، رہی سہی کسر کمرشل تھیٹر نے پوری کر دی جسکے بعد محض کمانے کی لالچ میں پروڈیوسرز نے بچی کچی تھیٹر میں اداکاراوں کےکپڑے اتار دیے تاکہ زیادہ آمدن حاصل ہو سکے ، اداکاراوں کا زیادہ استعمال منفی مقصد کے لیے کیا گیا ، اور ڈرامے کو ساخت کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا ، جسکے باعث فیملیز نے تھیٹر سے کنارہ کشی ایسی کی کے پھر پلٹ کر نہ دیکھا صرف خواتین ہی نہیں بلکے مردوں کے دلوں میں بھی ان سے محبت کا رشتہ کم ہو گیا ، لوگوں نے تھیٹر سمیت فنکاروں سے بھی نفرت شروع کر دی کیونکے ہم نے اسٹیج اور تھیٹر کو ایک کر دیا تھا وہ کہتے ہیں موجودہ دور میں ہم جسے تھیٹر سمجھ رہے ہیں وہ دراصل اسٹیج ہے ، تھیٹر اور استٹیج میں خاصا فرق ہے جو ہمیں اپنے بچوں کو سکھانے کی ضروت ہے ،اسٹیج ڈرامہ کو تھیٹر کا نام دینا تھیٹر کی توہین ہے 

اولاد کے لیے بے چین اداکاراؤں کی گود کس طرح ہری ہو سکتی ہے ؟
 
 سینئر ڈرامہ ڈائریکٹر محمد مصطفٰے سے پوچھے گئے سوال پر انکا کہنا تھا  کے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آرٹ کے فروغ کے ساتھ ساتھ تھیٹر کو یونیورسٹیز کالجز یا پھر آرٹس کونسل میں باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھائے ۔تاکہ نئی نسل میں تھیٹر کے فروغ کے ساتھ فیمیل فنکاروں کی بھی عزت بڑھے وہ شارٹ کٹ ، مجبوری یا شوق کا ڈھونگ رچائے اسٹیج ڈراموں کی زینت نہ بنیں بلکے عزت کے ساتھ ڈرامے کے مقصد لو لے کر اس فیلڈ میں آئیں اور اس سے جڑی رہیں ، وہ کہتے ہیں جب ہم تھیٹر کو علیحدہ سبجیکٹ کے طور پر پڑھائیں گے اور سکول و کالجز یایونیورسٹیز میں ہونے والے / آرٹس کونسلز میں ہونے والے فیملیز ڈراموں میں ان اداکاراؤں کو اصل دینگے تو لوگ خودبخود انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں ان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی کوشش کرینگے ، تاکہ بہترین نسل اآے چل سکے ۔ جس سے  ان اداکاراؤں کی اولاد کی خواہش کو پورا کر سکے گی ، کیونکہ صرف پاکستان میں اسٹیج تھیٹر میں ہی اداکاراوں کو نسبتا زیادہ اس مسئلہ کا سامنا ہے ۔ محمد مصطفیٰ  بھی مانتے ہیں کے تھیٹر کی نئی نسل کو تعلیم ان اداکاراوں کو درپیش مسائل کے ایک دم مکمل طور پر خاتمہ نہ سہی یہ تعلیم کسی حد تک ان کے درد کا مداوا کر سکے گی ۔ تعلیم بڑھے گی پڑھی لکھی اداکارائیں تھیٹر کا رخ کرینگی تو اس مشترکہ مسئلے کو حل ممکن ہو سکے گا جسکے لیے آرٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔