سیکشن آفیسر سے سرکاری گھر لے کر آئی جی کو الاٹ کیے جانے کا معاملہ ہائیکورٹ پہنچ گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے گھر میں گھس کر سامان بھی باہر نکال دیا۔
سیکشن آفیسر سے سرکاری گھر لے کر آئی جی کو الاٹ کیے جانے کا معاملہ ہائیکورٹ پہنچ گیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا دہری مراعات انجوائے کرنے والوں پر برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکشن آفیسر کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئےپوچھا کہ جو آدمی ایک بار اسلام آباد سے گزر جائے کیا وہ ساری زندگی کی ویٹنگ لسٹ میں آ جاتا ہے؟ کتنے آفیسر ہیں جو دوسرے صوبوں میں چلے گئے اور اسلام آباد گھر رکھا ہوا ہے؟
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ یہ سب نے مذاق بنایا ہوا ہے دہری مراعات انجوائے کر رہے ہیں، ہر آدمی کیا ہر شہر میں ایک ایک مکان رکھے گا ؟سب کو پلاٹ بھی دو دو چاہئیں مکان بھی دو دو چاہئیں۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ گھر سیکشن آفیسر کو کبھی الاٹ نہیں ہوا ان کی والدہ کو ہوا تھا، سیکشن آفیسر کو عہدے کے مطابق الگ گھر ملنا ہے۔درخواست گزار سیکشن آفیسر کی 17 تاریخ کو شادی ہےکل پولیس نے گھر میں گھس کر سامان بھی باہر نکال دیا،اتنا وقت تو دیا جائے کہ شادی ہو جائے۔ آئی جی اسلام آباد کے پاس آئی جی ہاؤس بطور رہائش موجود ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یک رہائش گاہ موجود ہے تو پھر دوسرا گھر کیوں الاٹ کیا گیا؟ آئی جی کو جب گھر الاٹ ہو گیا تو کیا وہ اب آئی جی ہاؤس چھوڑ دینگے ؟عدالت اس حوالے سے بڑی واضح ہے کہ سرکاری افسر پورے پاکستان میں ایک ہی گھر رکھ سکتا ہےوزیراعظم ہو، آئی جی ہو یا ہائیکورٹ کا جج ہو گھر ایک ہی رکھ سکے گا۔ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ والدہ کو گھر الاٹ ہوا تھا، ریٹائرمنٹ کے بعد یہ غیرقانونی طور پر رہ رہے ہیں، درخواست گزار کو سی کیٹگری کا گھر دو بار الاٹ ہوا یہ وہ لینے کو تیار ہی نہیں۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور کہا کہ جلد فیصلہ سنائیں گے۔