ہمارے لیے یہ اعزاز کم نہیں کہ مشرق و مغرب کے انسانوں کے دلوں پر راج کرنے والی شخصیت ہم سب کی اپنی ہے۔ ہم اسے اپنا کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ ہم سب کا ہے۔ وہ جس قدربڑوں کےدلوں پر حکومت کرتا ہے اسی قد ر بچے بھی اس کی شخصیت سے محبت و الفت کا دم بھرتے ہیں۔ آخر وہ کون ہے؟ وہ ہمارے قومی و ملی راہنما حضرت محمد اقبالؒ ہیں۔ اقبال ہم سب کا کیوں ہے؟اس لیےکہ اقبالؒ نے سب کے لیے سوچا۔ اقبالؒ کے نظریات اور اس کے فکری شعور میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور بالخصوص پوری امت مسلمہ کو ضرورت تھی۔ اقبالؒ نے زوال پذیر مسلم قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے ان کے اندر عقابی روح بیدار کی اور انہیں ایسے تازہ دنوں کی نوید سنائی جس سے قوم کی زندگی میں انقلاب کی شمع روشن ہو گئی۔ اقبالؒ عظیم فلسفی، ادیب، مفکر اور شاعر ہی نہیں ،پیامبر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں بلکہ ان سب خصوصیات کے ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے جنہوں نے نا صرف اپنی انسانی خصوصیات کی حفاظت کی بلکہ انسان سازی کا مشکل کام سرانجام دینے کی کوشش بھی کی۔
اقبال نے مسلم طلباء کو تاکید کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کوئی بھی فرد ہو یا جماعت خود اعتمادی کے بغیر اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ہم نے اپنی ذہنی پریشانیوں کا حل مغرب کے نظامِ فکر میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے ہم آہنگ نہیں اور یہی منزل کھونے کی وجہ ہے۔ اقبا ل افراد کو دعوتِ عمل دینے کے ساتھ ساتھ دعوتِ اخلاق بھی دیتے ہیں۔ اقبال کے ہر شعر میں زندگی کی تڑپ، یقین محکم کے ساتھ پیوستہ ہے۔ اقبال کے کلام میں چُستی ہے، جان ہے، خون تازہ ہے اور سب سےبڑھ کر اسلام کا وہ اساسی اصول موجود ہے جس کے بل بوتے پر اقبال خودی کی پہچان کرواتے ہیں۔
ضرور پڑھیں : اقبال ڈے پر سب کو چھٹی ہوگی
الغرض بذاتِ خود اقبال اور کلامِ اقبال کی خوبیوں کو گننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جس طرح ساحل پر بیٹھا ہوا کوئی بڑے سے بڑا نظر باز دریا کی موجوں کو نہیں گن سکتا اسی طرح اقبال کے کلام کی خصوصیات کو گننا بھی دشوار ہے۔ اقبال کے فکر، اظہار و بیان، معانی سے لے کر الفاظ تک حسن و خوبی کے جواہر کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل امر ہے مگر جہاں اقبال کے کلام میں گوناگوں دوسری خصوصیات اور محاسن قابلِ ذکر ہیں، وہیں ان کےکلام میں ایک خوبی کردار نگاری بھی ہے۔ وہ اپنے کلام میں الفاظ و معانی کے ذریعے ایسا حُسن پیدا کرتے ہیں کہ جس شخصیت کی بات ہو ، ہو بہو اس کے کردار کی مکمل تصویر قاری کی نگاہوں میں کھینچی چلی جاتی ہے۔ کلام اقبال کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اس کی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے اقبال نے اپنے اشعار میں ’’رفیقِ نبوت ‘‘ کا لفظ کہہ کر ہو بہو ان کی شخصیت کی عکاسی کی ہے کیونکہ آپؓ اصحاب رسولﷺ میں یہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ جس قدر قرب آپؓ کو حضورﷺ کی ذات اقدس سے تھا اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
؎اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا ۔۔۔۔۔جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
اقبال نے اپنی اسی نظم ’’صدیق ‘‘میں حضرتِ عمر فاروقؓ کے لیے ’’جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار‘‘ کہہ کر ان کی شخصیت کا عکس ایک ہی جملے میں مکمل بتا دیا ہے۔ کیوں حضرت عمرؓ کی شخصیت میں یہ جوہر تھا کہ آپؓ کی زبان اور دل حضورﷺ کی محبت سے قرار اور سکون پاتے تھے۔ اسی لیے اقبال نے کہا:
؎پوچھا حضور سرور عالمﷺ نے اے عمرؓ۔۔۔۔اے وہ کہ جوشِ حق سے ترے دل کو ہے قرار
اسی طرح نظم ’’بلال‘‘میں حضرت بلال حبشیؓ کے لیے ’’نورِ نبوت سے مستنیر‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا ایسا معنی پیدا کرتا ہے جس سے حضرت بلال حبشیؓ کی شخصیت کے تمام پہلو نمایاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں:
؎لیکن بلال ،وہ حبشی زادہ حقیر۔۔۔۔فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر
رموزِ بے خودی میں اقبال نے مسلم خواتین کے لیے سیرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ کو اسوہ کامل قرار دیتے ہوئے آپؓ کی مقدس و معصوم ہستی کے لیے ’’آسیا گردان و لب قرآں سرا‘‘ کہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
؎آں ادب پروردہ صبر ورضا۔۔۔۔آسیا گردان ولب قرآن سرا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ’’عشق‘‘، مولانا جلال الدین رومی کے لیے ’’سوز و ساز‘‘، حضرت امام فخر الدین رازی کے لیے ’’پیچ و تاب‘‘،بو علی سینا کے لیے ’’اندر غبار ناقہ گم‘‘،افلاطون کے لیے ’’میانِ غیب و حضور‘‘، مرزا خان داغ کے لیے ’’عشق کی ہو بہو تصویر اور ناوک فگن‘‘، نطشے کے لیے ’’مجذوبِ فرنگی‘‘اور اشتراکیوں کے لیے ’’کوچہ گرد‘‘ کہہ کر اقبال نے سب احباب کے کرداروں کی ہو بہو تصویر کھینچ دی ہے۔
؎بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔۔۔۔عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اقبال کے کلام کی یہی خاصیت انہیں آفاقی منزلوں تک لے جاتی ہے کہ وہ مختصر اصطلاح استعمال کرتے ہوئے شخصیت سازی کا نقشہ چند الفاظ میں اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔