وزیراعظم کا چیف جسٹس کو دوسرا خط، وزیر آباد واقعےپر جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) وزیراعظم شہباز شریف کا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو دوسرا خط لکھ دیا جس میں عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی۔
وزیراعظم کے چیف جسٹس پاکستان کو خط میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں تاہم کمیشن چندسوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟
کارواں کی حفاظت کے لئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟
حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟
ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟
وقوع کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟
اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟
ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟
کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ؟
اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چئیرمین کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟
ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟
خط میں شہباز شریف نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی اور اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی ۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر آباد میں عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے تاہم پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں، پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کی جا ومال کو خطرات ہیں جبکہ پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے اور ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے ماتحت پنجاب حکومت نے بدقسمتی سے تحققیات میں ان قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جن پر ایسے واقعات میں عمل کیا جاتا ہے اور افسوسناک امر ہے کہ کرائم سین (جائے وقوعہ)کو محفوظ نہیں کیاگیا اور نا ہی جس کنٹینر پر یہ واقع ہوا، لوگ زخمی ہوئے، اسے بھی فارنزک کے لئے تحویل میں نہیں لیاگیا۔ ان کا مزید کہانا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی، عمران خان کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لیجایا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ وقوعہ کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے شک ہے کہ پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں اور تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کے مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے۔ وفاقی حکومت اس بارے میں پہلے ہی خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی و سرکاری عمارتوں، گورنر ہاوس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کے خلاف کردار کشی اور بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے اور مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اس لئے درست حقائق کے تعین اور عوامی اعتماد کی خاطر وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمشن بننا ضروری ہے تاکہ سپریم کورٹ کاکمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے، اصل حقائق سامنے لائے۔
سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جبکہ موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں اس لئے ان حالات میں وفاقی حکومت کی درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔