(عثمان خان)جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کاکہناہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے اور یہ جنگی جرم ہے، بچوں کا قتل تو کسی مذہب میں جائز نہیں، مسجد اقصی ہمارا قبلہ اوّل ہے سب مسلمانوں پر اس کا حق ہے،اگر اسلامی دنیا بابری مسجد پر متحد ہوسکتی ہے تو مسجد اقصیٰ پر کیوں متحد نہیں ہوسکتی ؟
جمعیت علمااسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے غیر ملکی میڈیا کے نمائند گان سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے،قائد اعظم نے اقوام متحدہ کی تجویز کو مسترد کیا اور امریکی صدر کو خط لکھا کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ قبول نہیں کرسکتے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ فلسطین کی سرزمین کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا،اسرائیل اور فلسطینی حالت جنگ میں ہیں جنگ میں کوئی بھی اقدام کیا جا سکتا ہے،امریکہ برطانیہ براہ راست فلسطین میں اپنی فوجیں لے آیا ہے،حماس کے مجاہدین کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ براہ راست غزہ شہر پر حملے کئے جا رہے ہیں،ہسپتالوں سکولوں پر حملے ہو رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دے جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے،قضیہ فلسطین کے براہ راست فریق فلسطینی ہیں ان کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں،مسلم ا±مّہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑے جس طرح مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں،آج انسانیت کا قتل ہورہا ہے۔بچوں بوڑھوں اور خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے کیا اس کے بعد بھی انسانی حقوق کا علمبردار کہا جائے گا۔
ان کاکہناتھا کہ کیا ان کو یاد نہیں کہ نازنیوں نے ان کا کیسے قتل عام کیا کیا اس کا بدلہ فلسطینیوں سے لیا جائے گا،اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب بکھر گیا اب دنیا کو سوچنا ہوگا ایک اور زاویہ سے،اسرائیل اس خطے میں فرعون کے جانشین ہیں ،موسی کے جانشین فلسطینی ہیں،ہم نے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے،سعودی عرب نے اجلاس طلب کیا ان کا شکر گزار ہوں،فلسطینی قیادت کا بھی مطالبہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے،اس میں حماس کے نمائندوں کو دعوت دی جائے ان کے بغیر یہ اجلاس نامکمل ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ جے یو آئی کا اوّل روز سے موقف فلسطینیوں کی حمایت کا رہا ہے،پشاور ،کوئٹہ اور کراچی میں بڑے جلسے کئے، امریکہ میں برطانیہ فرانس یورپ میں مظاہرے ہوئے ہیں،ان کو بھی عوام کا احترام کرنا ہوگا ورنہ جمہوریت کی بات چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر بند کمروں میں فیصلے کرنے ہیں تو پھر عوام کی کوئی حیثیت نہیں،انڈیا کی میڈیا پر تعجب ہے کہ ان کو اتنی تکلیف کیوں ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اب پر حملہ کیا ہے،اگر اپنی سرزمین کو حاصل کرنے کی جدوجہد دہشت گردی ہے تو پھر گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دیں گے،کیا یہ حق فلسطین کو نہیں دیں گے جن کے زمین پر قبضہ ہے ؟
ان کاکہناتھا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا،تحریکوں میں اتار چڑھاو¿ آتا رہے گا،ہم جو حق اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں وہ فلسطینیوں اور افغانوں کےلئے بھی جائز سمجھتے ہیں،جو آزادی کی جنگ لڑتا ہے آج اس کو دہشت گرد کہا جاتا ہے ؟پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف اختیار کیا ہے اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ ہم سیاسی لوگ ہیں جو موقف فلسطین کے حوالے سے الیکشن سے پہلے ہے وہی الیکشن کے بعد بھی ہوگا،نگران وزیر اعظم نے جو دو ریاستی تصور پیش کیا وہ قائد اعظم کے تصور کی نفی ہے،فلسطین نے پاکستان کے موقف کو جراتمندانہ کہا اور کہا کہ وہ قیادت کرے۔ ان کاکہناتھا کہ برطانیہ سپر طاقت تھا امریکہ نے اس کی جگہ لینی تھی،اقوام متحدہ کا دفتر امریکہ میں تھا،پاکستان نے اس وقت بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور قیام پاکستان کے بعد۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ حماس کے حوالے سے کمزور پہلو کو تلاش کیا جارہا ہے کیا اس کا سیاسی پہلو نہیں،اسلامی دنیا کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں مزاحمتی تحریک کے ختم ہونے کا تصور ختم ہوگیا،اگر امریکہ وزیر خارجہ ان کی حمایت کو کھلم کھلا آتا ئے تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کی حمایت کریں،انہوں نے کہاکہ کارگل پر حملہ کیا تو کیا دنیا سے پوچھا تھا یہ سیکرٹ ہوتا ہے،دنیا کو یہ میسج چلا گیا کہ فیصلہ فلسطینی کریں گے کسی اور کو یہ حق نہیں،فلسطین کے بارے تصور تھا کہ عرب دنیا کا ہاتھ مروڑ کر ان سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا جائے گا فلسطین نے یہ تصور ختم کردیا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ جنگ بندی ان کا مطالبہ ہے کیونکہ اسرائیل شہریوں پرحملہ آورہے،ہم نے بھی کہا تھا کہ جو جنگ میں شریک نہیں ان کا نقصان نہیں ہونا چاہئے،مطالبہ ہے کہ مجاہدین کو جانے کی اجازت دی جائے اگر ریاست کو اعتراض نہ ہو،پاکستان کے ریاست کی اپنی صورتحال ہے وہ اپنے حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرے،اسلامی ممالک فلسطین کی عسکری حمایت کریں تاہم او آئی سی فیصلہ کرے۔ان کاکہناتھا کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے اور یہ جنگی جرم ہے، بچوں کا قتل تو کسی مذہب میں جائز نہیں، مسجد اقصی ہمارا قبلہ اوّل ہے سب مسلمانوں پر اس کا حق ہے،اگر اسلامی دنیا بابری مسجد پر متحد ہوسکتی ہے تو مسجد اقصیٰ پر کیوں متحد نہیں ہوسکتی ؟
یہ بھی پڑھیں: 10 نومبر کو کس کس شہر میں چھٹی ہو گی ؟ نوٹیفکیشن جاری