عمران خان کی رہائی؟پی ٹی آئی کی ٹرمپ سے امیدیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز )امریکا میں بڑے انتخابات کا بڑا نتیجہ سامنے آچکا ہے۔اور اِس انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کیلئے امریکہ کے صدر منتخب ہوچکے ہیں ۔اب تحریک انصاف ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔تحریک انصاف نے تو ایبسلوٹلی ناٹ کا نعرہ لگایا تھا۔امریکا کو سازشی قرار دیا تھا۔اور اپنی حکومت گرجانے کا الزام بھی امریکا کے سر پر ہی ڈالا تھا۔لیکن اب وہی امریکا پی ٹی آئی کو اچھا لگنے لگا ہے۔تحریک انصاف اب صرف ڈونلڈ ٹرمپ پر تکیہ کئے ہوئے ہے ۔جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی نے ایبسلوٹلی ناٹ کا نعرہ اپنے ہاتھوں سے دفن کردیا ہے۔اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ جب تحریک انصاف کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی تو اُس کے فوری بعد ہی تحریک انصاف کے بہت سے رہنما امریکا کے بارے میں محتاط گفتگو کرتے نظر آٗے ۔جب شاہ محمود قریشی اور شہباز گل سے پوچھا گیا کہ آپ امریکا کو غدار کہیں گے تو اُنہوں نے ایسا کہنے سے انکار کردیا تھا۔
پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ایک طرف امریکا کو آنکھیں دکھائی اور ساتھ ہی اپنے جارحانہ انداز کو مفاہمانہ انداز میں اُس وقت بدل لیا جب بانی پی ٹی آئی کے کہنے پر تحریک انصاف نے امریکا سے تعلقات میں بہتری کیلئے امریکی فرمز کا سہارا لینا شروع کردیا ۔یعنی پی ٹی آئی نے 360 ڈگری اینگل کا یوٹرن لیا ۔
اب جس امریکا کی غلامی پسند نہیں تھی اُسی امریکا سے یہ توقعات باندھی جارہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہونےوالی زیادتیوں پر ایکشن لے گا۔یعنی وہ تحریک انصاف جو اپنی حکومت کے گر جانے کو امریکی مداخلت قرار دے رہی تھی وہی اب امریکا کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی پیشکش کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ٹرمپ کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔لیکن ساتھ ہی علی محمد خان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے ٹرمپ سے کوئی اُمید وابستہ نہیں کی ہوئی ۔
اب ایک طرف تحریک انصاف کے رہنما ٹرمپ سے کوئی اُمید نہ لگانے کا دعوی کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب لطیف کھوسہ نے تو واضح انداز میں کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی ڈونلڈ ٹرمپ کےا قتدار میں آنے کے بعد رہا ہوجائیں گے جبکہ امریکا میں مقیم پاکستانی رہنما عاطف خان بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا گیا آپ کے دوست جیل میں ہے اُنہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے۔جس طرح میرے اوپر پولیٹکل چارجز بنائے گئے بانی پی ٹی آئی پر بھی پولیٹیکل چارجز بنائے گئے۔عاطف خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ٹرمپ اور اُن کے خاندان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں۔
اب تحریک انصاف وکٹوں کی دونوں جانب کھیل رہی ہے ایک طرف وہ ٹرمپ سے اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔تو وہیں دوسری جانب وہ اِس سے انکاری بھی نظر آرہی ہے۔جبکہ شہباز گل تو اپنی ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کو حکومت اور طاقتور حلقوں کیلئے مشکل قرار دے رہے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں آج سے دو مہینے پہلے تین معتبر پاکستانی شخصیات صدر ٹرمپ سے فلوریڈا میں ملے۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ ڈنر کیا۔ اُنہیں بنای پی ٹی آٗی کے بارے اور پاکستان میں جاری فسطائیت بارے بتایا۔ لیکن صدر ٹرمپ کا جواب ابھی مجھے آپ کے ساتھ شئیر کرنے کی اجازت نہیں ۔
اب شہباز گل کی جانب سے یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے ٹرمپ کے آنے سے حکومت اور طاقتور حلقوں کو کسی قسم کی کوئی فکر لاحق ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے حکومت خوش ہے یا نہیں ؟اور کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موجودہ حکومت اچھے سفارتی تعلقات بناسکے گی؟یہ اپم سوالات ہے بظاہر وزیر اعظم شہباز شریف نے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر اُنہیں مبارکباد دی ہے اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر بھی پُرجوشی کا اظہار کیا ہے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ کے کئی رہنما ڈونلڈ ٹرمپ پر اب بھی ا ور ماضی میں کڑی تنقید کرتے نظر آئے۔رانا ثنا اللہ نے حال ہی میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بہت مماثلت ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹ بولتا رہا، غیر قانونی کام کرتا ہے اور کیپیٹل ہل پر حملہ کروایا۔پھر اسی طرح ماضی میں مریم نواز بانی پی ٹی آئی کو پاکستانی ٹرمپ کہا کرتی تھی۔
اب اِسی طرح وزیر دفاع خواجہ آصف بھی ٹرمپ کے اقتدار میں آنے پر زیادہ خوش نظر نہیں آتے ۔لیکن وہ ساتھ ہی یہ اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ ایک شخص کی خاطر ٹرمپ اپنے تعلقات خراب نہیں کریں گے ۔ امریکا میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے، وہاں پاکستان سے زیادہ مضبوط اسٹیبلشمنٹ ہے۔
اب آج ہی کچھ گھنٹے قبل خواجہ آصف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ امریکہ سے کال آنے کی دیر ہے اور بانی پی ٹی آئی کو کال کرنے والوں کے حوالے کر دیا جائے گا پاکستان کال پہ انکار کرنے کی جرات نہیں کرسکتا- نہایت ادب کے ساتھ عرض ھے نواز شریف کو کال کے ساتھ 5ارب ڈالر کے آفر بھی تھی اور اُنہوں نے انکار کیا اور ایٹمی دھماکا بھی کیا- پھر مشرف کو کال آئی وہ لیٹ گیا- جو کچھ حکم ملا وہ اُس سے زیادہ پہ راضی ہوئے- ۔اب حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کس طرح سے اپنے تعلقات کو لے کر چلتی ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کے دور میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے تھے کہ یہاں تک کہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے بانی پی ٹی آئی سے ایک بار بھی ٹیلی فون پر گفتگوکرنا مناسب نہیں سمجھا۔کیا اب بھی ایسی صورتھال ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے بانی پی ٹی آئی کیلئے کوئی سہولتکاری کا کام کریں گے یا پھر اپنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاکر یہ بڑا سوال ہے۔