درپن:پاکستان فلم انڈسٹری کے خوبرواداکارکوبچھڑے 44برس بیت گئے
مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 اردو،8 پنجابی اوردو پشتو فلمیں شامل تھیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)پاکستان فلم انڈسٹری کے خوبرو اداکار درپن کو مداحوں سے بچھڑے 44برس بیت گئے،وہ قدکاٹھ، رنگ وروپ اورمردانہ وجاہت کی وجہ سے عام زندگی میں بھی کسی ہیرو سے کم نظر نہیں آتے تھے۔
1929ء کو اُترپردیش میں پیداہونے والے درپن کا حقیقی نام سید عشرت عباس تھالیکن فلموں میں درپن کے نام سے شُہرت حاصل کی،وہ نامور اداکارسنتوش کمار، ہدایت کار ایس سلیمان اور اداکار منصور کے بھائی تھے،سنتوش کمار اپنے وقت کے کامیاب ہیرو تھے جن کاحقیقی نام سیدموسیٰ رضا تھا،ایس سلیمان نے ڈائریکشن میں بہت نام کمایا۔
مردانہ وجاہت اور گہری نیلی آنکھوں والے درپن نے فلمی سفرکا آغاز ہدایت کار حیدر شاہ کی فلم”امانت“ سے کیا جو 21 دسمبر 1950ء کوریلیزہوئی تھی،اس میں وہ اپنے اصل نام عشرت عباس کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تھے،ان کی دوسری پنجابی فلم ”بلو“ تھی جس کا نام پہلے”میراثی“ رکھا گیا تھالیکن احتجاج کے بعد نام بدل کر ”بلو“ رکھ دیا گیا۔
وہ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے”عدل جہانگیری“ اور”باراتی“ میں کام کیا،”عدلِ جہانگیری“میں محمد رفیع کا گایا ہوا گانا”اپنا ہی گھرلُٹانے دیوانہ جا رہا ہے“ بڑا مشہور ہوا تھا،بھارت میں قیام کے دوران ان کے اس وقت کی حسین اداکارہ نگارسلطانہ کے ساتھ خاصے تعلقات بن گئے جو بڑھتے بڑھتے محبت میں تبدیل ہوگئے،نگار سلطانہ نے بھارتی فلم”مغل اعظم“ میں دل آرام کا کردار بھی کیا تھا۔
درپن دوبارہ پاکستان آگئے اوریہاں قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور انہیں فلمیں ملنا شروع ہوگئیں،لاہورمیں انہوں نے درپن کے فلمی نام سے فلم”باپ کا گناہ“سے اپنے فلمی کیریئر کا دوبارہ آغاز کیااس کے بعدانہیں بہت سی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم”نائلہ“سر فہرست ہے۔
انہیں لگا تار دو فلموں میں بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی ملا تھا،پہلا ایوارڈ 1959ء میں بننے والی فلم ”ساتھی“ اوردوسرا اگلے سال 1960ء میں آنے والی فلم ”سہیلی“پر ملاتھا، 1959ء میں انہوں نے ایک فلم ”ساتھی“ بنائی جس میں ان کے ساتھ نیلو،طالش،حُسنہ اور نذیر نے کام کیاتھا، یہ فلم بہت مقبول ہوئی اور اسی سے درپن کی کامیابیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا،اس کے بعد انہوں نے کئی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں ساتھی،رات کے راہی،سہیلی،گلفام، قیدی،آنچل، باجی، شکوہ، اِک تیرا سہارا، نائلہ،انسان بدلتا ہے،دلہن،شکوہ،آنچل اور پائل کی جھنکار نمایاں ہیں،بطور ہیرو درپن کی آخری کامیاب فلم”پائل کی جھنکار“1966ء میں ریلیز ہوئی تھی ،اس کے بعد انہوں نے کریکٹر اور سپورٹنگ رول اداکرناشروع کردیئے تھے۔
درپن نے اگرچہ کم لیکن معیاری فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے،انہوں نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 اردو،8 پنجابی اور دو پشتو فلمیں شامل تھیں،بطور فلم ساز بھی چند فلمیں بنائیں جن میں بالم، گلفام، تانگے والا،انسپکٹر اور ایک مسافر ایک حسینہ شامل ہیں۔
درپن نے نیئرسلطانہ کے علاوہ نیلو، مسرت نذیر،رانی، شمیم آرا، زیبا کے ساتھ بھی بطور ہیروکام کیاتھا،بطور ہیرو 15فلمیں شمیم آراء کے ساتھ اور 16فلمیں اپنی بیوی نیئر سلطانہ کے ساتھ تھیں،درپن اور نیئرسلطانہ کوسلورسکرین کی حسین ترین جوڑی ہونے اعزاز حاصل رہااوریہ شادی فلمی صنعت کی کامیاب ترین شادیوں میں شمار ہوتی ہے،یہ بندھن مرتے دم تک قائم رہا۔
کہاجاتاہے کہ وحید مراد کے فلم انڈسٹری میں آنے کے بعددرپن کی مقبولیت کا سورج گہنا گیاتھا،انہوں نے فلموں کے بعد اپنی ریکروٹنگ ایجنسی بنا لی تھی،یہ خوبرو اداکار8 نومبر 1980 کو لاہور میں طویل بیماری کے باعث راہی ملک عدم ہوگئے تھے،اس وقت ان کی عمر 52سال تھی،وہ مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔