جون ایلیا: ان کی شاعری اور فلسفے کی گونج آج بھی زندہ ہے

اپنی شاعری سے نہ صرف قدامت پسندی کوچیلنج کیابلکہ اردو ادب کو نیا رنگ دیا  

Nov 08, 2024 | 15:04:PM

(ویب ڈیسک)منفرد اسلوب کے شاعر،مصنف اورمترجم جون ایلیا کو دنیا سے رخصت ہوئے 22 برس بیت گئے،مگروہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ہندوستان کے شہر امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والے جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغرتھا، ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ  نامور فلسفی اور دانشور سید محمد تقی اور معروف شاعر رئیس امروہوی جون ایلیا کے بھائی تھے۔

 جون ایلیا عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے،انہوں نے اپنی شاعری سے نہ صرف قدامت پسندی کوچیلنج کیابلکہ اردو ادب کو نیا رنگ دیا، ان کی شاعری اور فلسفے کی گونج آج بھی زندہ ہے۔

جون ایلیا کے شعری مجموعوں میں شاید، گویا اور گمان شامل ہیں، ان کی زندگی کی تلخیاں ان کی شاعری میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں،جون ایلیا کو اردو نثر اور نظم میں‌ ان کے منفرد اسلوب اور غیرروایتی انداز نے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا، موضوعات اورغیرروایتی انداز کے سبب انہیں ایک باغی اور روایت شکن شاعر کی حیثیت سے زیادہ شہرت ملی۔

جون ایلیاء کی آخری مکمل تحریر "تمہارا شکریہ" ان کی وفات کے بعد ایک ڈائجسٹ میں شائع ہوئی تھی  جس میں انہوں نے اپنی موت کی قبل از وقت علامتی اطلاع دی تھی ،وہ شاعری میں‌ اپنے منفرد لب و لہجے اور روایت شکنی کے سبب خاص و عام میں مقبول ہوئے،انہوں نے اپنے کلام میں‌ محبوب کو براہِ راست اورنہایت بے تکلفی سے مخاطب کیا، ان کی شاعری ہر عمر اور طبقے میں‌ پسند کی گئی،انہوں نے  غزل کوروایتی بندشوں سے نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

جون ایک ادبی رسالے"انشا" کے ساتھ بطور مدیر بھی وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات نامور ادیبہ اور کالم نگار زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد ازاں جون رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ،ان کی زاہدہ حنا سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا، 1980 کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی تھی،اس کے بعد تنہائی کے باعث جون ایلیا کی صحت گرتی چلی گئی، وہ 8 نومبر 2002 ءکو اس دنیا سے رخصت ہوئے  اورکراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

مزیدخبریں