پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانیوالے 7 ارب ڈالرز کے قرض معاہدے کے تحت حکومت کو کئی کڑی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہے ، ان میں سے بعض ایسی شرائط بھی ہیں جن کا ملکی معیشت کو نقصان ہوسکتا ہے ، آئی ایم ایف شرائط کے مطابق حکومت جنوری 2025 تک کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کر دے گی ، آئی ایم ایف کا یہ خیال ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو دی جانیوالی یہ گیس سستی ہے اور حکومت اس پر سبسڈی دے رہی ، کیپٹو پاور پلانٹس وہ بجلی کے کارخانے ہیں جنہیں صنعتوں نے آج سے کئی سال پہلے لگایا تھا ، یہ صنعتیں گیس سے اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرتی ہیں اور اضافی بجلی قومی گرڈ میں فروخت کردی جاتی ہے ، حکومت کا یہ خیال ہے کہ قومی گرڈ میں اس وقت ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے اس لیے ان صنعتوں کو قومی گرڈ سے بجلی فراہم کی جانی چاہیئے ، کیا حکومت کا یہ فیصلہ قابل عمل ہے یا نہیں اور اس کے ملکی صنعتوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ) پائیڈ ( کے سابق وائس چانسلر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ندیم الحق نے سوشیو ایکنامک انسائٹ اینڈ انالیٹکس – تھنک ٹینک کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کی ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کا کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے سے ملکی صنعتوں کو بڑا دھچکا لگے گا ، رپورٹ کے مطابق کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس بند کرنے سے 3 ارب ڈالرز کی برآمدات کم ہوجائیں گی ، 1400 سے زائد بڑی ٹیکسٹائل ملز بند ہوجائیں گی اور قومی خزانے کو 391 ارب روپے کی آمدنی بھی رک جائے گی ،
پاور ڈویژن کے مطابق ملک میں کل 1189 کیپٹو پلانٹس لگائے گئے ہیں جو 304 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کرکے 2109 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں پاور سیکٹر کے بعد کیپٹو پاور پلانٹس درآمدی ایل این جی کے سب سے بڑے خریدار ہیں ، اگر کیپٹو پاور پلانٹس ایل این جی کی خریداری روک دیں تو گیس سسٹم میں 115 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فالتو ہوجائے گی جس کا کوئی خریدار نہیں ہوگا ۔ اگر کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کے نرخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت نے ستمبر میں مقامی کیپٹو پاور پلانٹس اور برآمدی صنعتوں کے لیے ملکی گیس کی قیمت 3 ہزار روپے جب کہ مقامی صنعتوں کے لیے قیمت 2150 روپے ایم ایم بی ٹی یو مقرر کر رکھی ہے ، جب کہ درآمدی ایل این جی کا نرخ کیپٹو پاور پلانٹس سمیت تمام صنعتوں کے لیے 3859 روپے ایم ایم بی ٹی یو مقرر کر رکھا ہے۔ گذشتہ ایک برس کے دوران کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔
ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومتی انتہائی جلد بازی میں فیصلے کرتی ہیں ، معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے ، حکومت اچانک اپنے فیصلے تبدیل کرتی ہے ، کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی روکنے کا فیصلہ بھی اسی طرح ہے ، کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جب صنعتیں اپنی بجلی بنانا روک دیں گی تو انہیں قومی گرڈ سے بجلی فراہمی کس طرح کی جائے گی ، کیا صنعتوں نے یہ انفرا اسٹرکچر لگایا ہوا ہے یا نہیں ؟ رپورٹ کے مطابق ان صنعتوں کو 4 ہزار میگا واٹ بجلی درکار ہے ، جس پر 20 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور گیس سے بجلی پر منتقل کرنے کے لیے دو سال کا وقت درکار ہے ، کراچی سمیت جنوبی علاقوں میں قائم 80 فیصد صنعتیں گیس پر چل رہی ہیں ، قومی گرڈ میں ان صنعتوں کو بجلی کی طلب پوری کرنا مشکل ہے ، لاہور ، فیصل آباد اور شمالی علاقوں میں قائم صنعتیں اگرچہ بجلی استعمال کر رہی ہیں لیکن ان کے گیس کنکشنز کی درخواستیں گذشتہ کئی سالوں سے التواء کا شکار ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے سے ملکی صنعتوں کی پیداواری لاگت مزید بڑھ جائے گی ، خیال رے کہ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر پہلے ہی اپنے علاقائی ممالک کا بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے ، کیونکہ پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخ بھارت ، بنگلہ دیش کے مقابلے میں دو گنا ہیں ،
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس کی بجلی قابل اعتبار ہے کیونکہ اس میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوسکتی ، اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جب صنعتوں کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پیداواری نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے ، کیپٹو پاور پلانٹس کی بجلی کا نرخ قابل برداشت ہے جو کہ ایل این جی سے تیار کی گئی بجلی سے بھی کہیں سستی ہے ، ملکی صنعتوں کو گیس سے بجلی پر منتقل کرنے سے بجلی کی قیمت میں 11 فیصد اضافہ ہوگا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس درآمدی آر ایل این جی کے سب سے بڑے صارفین ہیں ، اگر آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ان کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی روکی جاتی ہے تو اس سے سوئی سادرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیوں کو سالانہ ایک ارب ڈالرز کا نقصان ہوگا جب کہ ٹیک آر پے کی بنیاد پر کیے گئے ایل این جی معاہدوں پر حکومت کو جرمانہ بھی لگ سکتا ہے ۔ صنعتوں کو اچانک گیس کی بندش سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو 128 ارب روپے کا نقصان ہوگا
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن اپٹما کے چیئرمین کامران ارشد کا خیال ہے کہ پاکستان میں صارفین کو گیس کا کوٹہ ملکی معیشت کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے ، پاکستان میں 70 فیصد گھریلو صارفین کو سبسڈائزڈ گیس فراہم کی جارہی ہے ، اس کراس سبسڈی کا بوجھ ملکی صنعتیں اٹھا رہی ہیں ، جوکہ 300 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے کیپٹو پاور پلانٹس کو اگر مناسب ریٹ پر قومی گرڈ سے بجلی کی سپلائی دی گئی تو صنعتیں اس بارے میں غور کریں گی ورنہ قومی گرڈ کی بجائے توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کو دیکھا جائے گا کیونکہ قومی گرڈ کےمقابلے میں فرنس آئل ، بائیو گیس اور کوئلے سے پیدا کی گئی بجلی سستی ہے ،
ملکی معیشت کو چلانے کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے جب تک پاکستان ڈالرز نہیں کمائے گا ملکی قرضوں کا بوجھ کم نہیں ہوسکتا ، ڈالرز کمانے کے لیے ایکسپورٹس کو بڑھانا ہوگا ، 2020 سے 2022 تک پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ ٹیکسٹائل ملز کو علاقائی نرخوں پر بجلی اور گیس فراہم کی جا رہی تھی ، 2022 کے بعد ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ گیس کمپنیوں میں مقابلے کی فضا قائم کی جائے ، دو گیس کمپنیوں کی اجارہ داری کو روکا جائے ، گیس سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے اور گیس الوکیشن پالیسی پر نظر ثانی کی جائے ، گھریلو گیس صارفین کو بجلی پر منتقل کیا جائے ، ایل این جی میں تھرڈ پارٹی کو رسائی دی جائے گیس کی قیمتوں کے لیے ویلنگ کاسٹ کا فارمولا نافذ کیا جائے ، صنعتوں کے لیے بزنس ٹو بزنس کنٹریکٹس کے ذریعے گیس کا نرخ 9 سینٹ فی یونٹ مقرر کیا جائے ، صنعتوں کے لیے 31 روپے فی یونٹ یا 11 سینٹ فی یونٹ پر کارخانے چلانا نا قابل عل ہوچکا ہے ۔ کراس سبسڈیز کا کاتمہ کیا جائے ، ہائبرڈ بلک پاور کنزیومرز کے فارمولے پر غور کیا جائے