الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟

Oct 08, 2023 | 12:14:PM

Azhar Thiraj

’یہ کون ہوتے ہیں 24 کروڑ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے،اقتدار عوام کا ہے،عوام ہی ریاست ہیں،عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کے فیصلے کرسکتے ہیں یہ نہیں‘یہ وہ الفاظ ہیں جو مجھے ایک سروے کے دوران سننے پڑے۔یہ صرف ایک بندے کی آواز نہیں ایسے کئی لوگ ملے جو یہ مطالبہ کرتے پائے گئے۔

جوں جوں نگران حکومتیں طویل ہوتی جارہی ہیں عوام میں غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے،عوام فوری الیکشن چاہتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں جو جمہور پر حکومتیں کرتی ہیں وہ الگ الگ بیانیے لے کر مارکیٹ میں موجود ہیں،پی ٹی آئی اس وقت منظر عام سے آؤٹ ہے تو  ن لیگ کو ووٹر کوئی ’گھاس‘ نہیں ڈال رہے۔پیپلز پارٹی فوری الیکشن چاہتی ہے تو مولانا فضل الرحمان پہلے معیشت پھر انتخاب کا نعرہ لگارہے ہیں،یہ جنرل ضیاء الحق کے نعرے’پہلے احتساب پھر انتخاب‘ جیسا ہے ۔یہ احتساب اتنا طویل ہوا کہ 11سال لے گیا۔ جماعت اسلامی پہلے نئی حلقہ بندیاں اور لیول پلینگ چاہتی ہے۔

اس بار پاکستان میں پانچ برس بعد انجام دیا جانے والا آئینی فریضہ جو ملکی بقا سلامتی اور جمہوریت کے لیے انتہائی ضروری ہے وہ فریضہ ادا کرنے میں بہت سی مشکلات حائل ہو رہی ہیں۔ یعنی ملک میں پانچ برس بعد مقررہ مدت سے تجاوز کے بعد بھی الیکشن پر سوالیہ نشان برقرار ہے۔اوپر سے الیکشن سے صرف دو ماہ قبل پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی جیسابڑا پالیسی شفٹ ۔جس نے الیکشن کے انعقاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ لامحالہ اس پالیسی شفٹ کا کچھ عالمی اور کچھ مقامی ردعمل آئے گا۔جس سے سیکیورٹی کے سنگین خدشات بھی پیدا ہو گئے خاص کر بلوچستان اور کے پی میں جہاں غیر قانونی افغان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے،ایسے میں الیکشن کا پر امن طریقے سے انعقاد بہت مشکل نظر آتا ہے۔

ضرورپڑھیں:ہم چاند پر کیوں جائیں؟

پی ڈی ایم سربراہ تو پہلے ہی بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اپنا نقطہ نظر بیان کر چکے ہیں کہ ایسے حالات میں کوئی بھی سیاسی جماعت الیکشن مہم چلانے کے قابل نہیں رہے گی ۔جب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن کرانے کی بات کی گئی ہے تب سے ہی کبھی ڈھکے چھپے انداز میں تو کبھی کھلم کھلا جنوری میں الیکشن کسی بھی صورت نہ ہونے کی بیان بازی کی جار ہی ہے۔


دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور جمیت علما اسلام ف یہ تین جماعتیں 16 ماہ اقتدار میں رہی اس دوران ان کے تعلقات مثالی اور تمام فیصلے مشترکہ ہوتے تھے۔تینوں جماعتوں کی مرضی سے ہی الیکشن نومبر میں ہونے کی بجائے جنوری میں کرانے کی منظور دی گئی ۔کیونکہ ان ہی جماعتوں کے کچھ سرکردہ لیڈر نے اپنی حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرانے کی داغ بیل ڈالی۔لیکن اب انہیں جماعتوں کے قائدین میں کچھ معاملوں پر اتفاق نظر نہیں آتا اور یہ ایک دوسری کیخلاف سخت بیان بازی کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوششوں میں ہے۔مولانا فضل الرحمٰن جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہے اور کچھ دن پہلے تک بروقت الیکشن کرانے کے حامی تھے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری میں اتنخابات کرانے کے مبہم شیڈول پر اعتراض کر رہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق الیکشن کرانا کوئی مسئلہ نہیں لیکن جنوری فروری میں سخت سردی میں الیکشن کا انعقاد انتہائی مشکل ہوگا۔اور لوگ ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن نہیں آسکے گے ۔اس لیے الیکشن کو یا تو نومبر میں کرایا جائے (جو عملی طور ممکن نہیں ) یا الیکشن فروری تک منسوخ کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان I Love you 

سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو کیا ہوگا ؟جواب سادہ سا ہے کہ جب کسی آواز کو زبردستی دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ زیادہ طاقت سے باہر نکلتی ہے،اس وقت عوام میں بے یقینی ہے،مایوسی ہے،نفرت ہے ،یہ نظام سے نفرت مزید خرابی پیدا کرسکتی ہے،مزید خرابی پیدا ہوئی تو خدانخواستہ ملک میں انارکی پھیلے گی ۔جب انارکی پھیلے گی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے ۔ 

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

مزیدخبریں