(24 نیوز)آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ ختم؟بجلی کی قیمت فکس ہوگی؟انتہائی اہم انکشاف ہوگیا۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ آئی پی پیز معاہدے گلے کی ہڈی بنتے چلے جارہے ہیں ۔1994 اور 2002کی پاور پالیسیز کے تحت لگنے والے آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں کی وجہ سے گزشتہ 30 سال سے بجلی نہ خریدنے کے باوجود ان آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے سالانہ کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے آئی پی پیز جو بند ہیں،لیکن معاہدے کے تحٹ اِن بند آئی پی پیز کو بھی بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کے گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو 6600 ارب روپے کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے ہیں نتیجتاً حکومت کو بجلی کے نرخ بار بار بڑھانے پڑ رہے ہیں جو عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئے ہیں نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بجلی کے بلوں پر قتل اور خود کشیاں ہونے لگی ہیں۔
پاکستان میں صنعتوں کے بجلی کے نرخ 15 سینٹ فی یونٹ ہیں جو خطے کے دیگر ممالک کے 8 سینٹ فی یونٹ کے مقابلے میں دگنے ہیں اور غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے ملک میں صنعتیں بند ہورہی ہیں اور ملکی معیشت سکڑنے لگی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ایف پی سی سی آئی سمیت دیگر تنظیموں نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے آئی پی پیز سے مذاکرات کیلئے وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں سابق نگراں وزیر توانائی محمد علی کے ساتھ پاور سیکٹر کی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ جس کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ 1994 سے 2002 کی پاور پالیسیز کے تحت لگنے والے 5 آئی پی پیز نے اپنے پاور پرچیز معاہدے ختم کردیے جائیں گے ۔ لیکن اب وزیر توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ ہم کوئی معاہدہ یکطرفہ ختم نہیں کررہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف طریقوں سے ڈیل کر کے ہم بہتر قیمتوں پر آسکتے ہیں ۔
حکومت معاہدے ختم کرنے کی بجائے بجلی کے ریٹ کو فکس کرنا چاہتی ہے ۔کیا حکومت ایسا کرپائے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔لیکن یہ بات تو صاف نظر آرہی ہے کہ آئی پی پیز دھیمک کی طرح معیشت کو چاٹ رہے ہیں ۔اعداد و شمار کی بات کریں تو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو 1990 کی دہائی کے وسط سے 24-2023 تک 12.17 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ ملی ہے۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی پی پیز کے لیے ٹیکس استثنیٰ کیپیسٹی چارجز سے تجاوز کر گئے ہیں، جس کا حجم رواں مالی سال 20.91 کھرب روپے ہونے کی توقع ہے، سرکاری ذرائع کے مطابق ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں یکم جولائی 1988 کے بعد قائم ہونے والے الیکٹرک پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹ حاصل کرتی ہیں۔اس کے بعد سے جمہوریت اور آمرانہ طرز حکومتوں نے تاحیات ٹیکس چھوٹ کی رعایت کے ساتھ تقریباً 5 پاور پالیسیوں کو نافذ کیا جبکہ 106 آئی پی پیز قائم ہوئے۔سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے 2019-2018 تک معاشی سروے میں آئی پی پیز کو ٹیکس چھوٹ کا ڈیٹا فراہم کیا لیکن اس کے بعد جب ٹیکس چھوٹ کی مالیت میں اضافہ ہوا تو اُنہوں نے معلومات کو ظاہر کرنا بند کردیا۔اس کے بجائے استثنیٰ کی لاگت کو دوسرے شعبوں کے ساتھ ملادیا گیا تاکہ اِسے لوگوں سے چھپایا جا سکے۔
سرکاری ذرائع کے بقول 1988 کے بعد پاور پالیسی کے نتیجے میں 2002 تک پانچ بڑے آئی پی پیز قائم ہوئے تھے، ان میں سے 4 آئی پی پیز نے اپنے بجلی کی خریداری کے معاہدے مکمل کر لیے اور اب صرف ایک آئی پی پی حب پاور کمپنی باقی رہ گئی جو اسی مراعات پر بجلی پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں 2002 سے 2008 کے درمیان کل 10 نئے آئی پی پیز قائم کیے گئے، 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ٹیکس چھوٹ حاصل کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید 10 آئی پی پیز قائم کی گئیں،2013سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران آئی پی پیز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا جہاں مجموعی طور پر 55 نئے پاور پلانٹس لگائے گئے، 2018 سے 2023 تک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں میں 40 اضافی آئی پی پیز قائم کی گئیں۔