(24 نیوز)یکم اکتوبر سےایک بار پھر پٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ؟مارکیٹیں ،کاروبار،دکانیں جلدی بند ہوجائیں گی،آئی ایم ایف کی ضد کے آگے حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے بجلی کے مہنگے بلز کی مارے عوام کو اس صورت میں معمولی ریلیف دینے کی حامی بھری جب گیس کی قیمتیں 40 سے 50 فیصد بڑھائی جائیں گی ۔آئی ایم ایف پاکستان کی عوام کے ساتھ آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا والا رویہ اپنائے ہوئے ۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جس موسم میں بجلی کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اسی موسم میں بجلی کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھا دی گئی اور اب معمولی ریلیف اکتوبر میں دینے کی حامی بھری وہ بھی اس صورت میں کہ گیس کی قیمتیں بڑھائی جائی۔آئی ایم ایف یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں بجلی کا استعمال بتدریج کم اور گیس اور استعمال بڑھے گا۔یعنی گرمیوں میں عوام پر بجلی کا عذاب مسلط کیا گیا تو آتی سردیوں میں مہنگی گیس کا بم پھوڑا جائیگی ۔ذرائع کے مطابق صارفین کو بجلی کے بلوں پر ریلیف دینے کے معاملے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے حکام کے درمیان رابطہ ہوا۔ جس مین آئی ایم ایف نے 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کی تجویز مسترد کر دی تاہم 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والےصارفین سے بلز قسطوں میں وصول کرنے پر اتفاق کیا۔یعنی جسے ریلیف کا نام دیا جا رہا ہے وہ ریلیف چند ماہ بعد دوبارہ تکلیف کی صورت میں نمودار ہوگا۔اس مہربانی کے پیچھے بھی ایک ٹیکنیکل راز یہ ہے کہ چند مہینوں میں بجلی کا استعمال کم ہوگا جس سے لا محالہ بلز بھی کم ہو گی ۔اس وقت دوبارہ سے یہ بل اقساط کی صورت میں پورا کر لیا جائےگا۔ایسے ہی کارنامہ پی ڈی ایم دور حکومت میں سر انجام دیا جا چکا ہے۔جب پچھلے برس بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ۔عوام میں بیانیہ بنایا گیا لیکن چند ماہ بعد ہی وہ ریلیف دوبارہ سود سمیت وصول کر لیا گیا۔اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موسم گرما میں 200 یونٹ تک استعمال کرنے والی افراد کی تعداد انتہائی معمولی ہے۔اس لیے اقساط کی صورت مین فائدہ اٹھانے والے افراد کی تعداد بھی انتہائی معمولی ہو گی ۔ اس اقدام سے تقریباً 40 لاکھ بجلی صارفین کو وقتی ریلیف ملنے کا امکان ہے جبکہ 400 یونٹ تک ریلیف کی صورت میں 3 کروڑ 20 لاکھ صارفین مستفید ہو سکتے تھے۔ مزید اعداود شمار کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا ئے تو پاکستان میں بجلی صارفین کو تین حصوں مین تقسیم کیا جاتا ہے۔ لائف لائن، پروٹیکٹڈ اور اَن پروٹیکٹڈ۔ لائف لائن صارفین وہ ہیں جن کی بجلی کی کھپت پچھلے 12 مہینوں میں ماہانہ 100 یونٹ سے کم ہے۔ پروٹیکٹڈ صارفین وہ ہیں جو پچھلے 6 ماہ سے مسلسل ہر مہینے 200 یونٹس سے کم استعمال کرتے ہیں، جبکہ ہر ماہ 200 یونٹس سےزائد کھپت والوں کی اَن پروٹیکٹڈ صارف کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔بجلی کے بلز سے کچھ جان خلاصی ہو گی تو عوام کو مہنگی گیس کے جھٹکے لگائے جانے کی تیاری ہے۔ ورنہ مہنگا پٹرول تو مزید مہنگ کرنے کی تیاری تو مکمل جا چکی ہے۔ کیونکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پیٹرول پر ڈیلرز مارجن ایک روپے 64 پیسے فی لیٹر بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔اس لیے عوام جمع خاطر رکھے کہ چند دنون بعد دوبارہ سے پٹرول کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے۔
ہمارے سیاستدان اور بیورو کریٹ ،معاشی اور ماہر توانائی 75 برسوں سے ایک جیسی ہی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں ۔75 برسوں میں ان کے پاس کسی بھی خسارے کو کم کرنے کے لیے وہ ہی چند گنے چنے فارمولے ہیں جو وہ ہر سال دو سال بعد آزماتے ہیں ۔بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہو گا یہ پالیسیاں دینے والے وہ ہی چند لوگ ہے کسی نہ کسی جماعت میں کاحصہ رہتے ہیں ۔ اور جب بھی اس جماعت کی حکومت آتی ہے وہ کم و بیش وہی فارمولے پیش کر دیتے ہین جو انہوں نے اس سے پہلے بھی آزمائے ہوتے ہیں اور اس کو نافذ کرنے یا کامیاب کرانے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔اب بھی کل سے ایک ایسی ہی پالیسی زیر گردش ہے جو محض چند مہینے پہلے پی ڈی ایم کے دور حکومت مین پیش کی گئی ۔تھوڑا ماضی میں جائے تو تحریک انصاف اور اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے دور میں بھی اسی طرح کا ہی شوشہ چھوڑا گیا تھا۔یہ پالیسی ہے تونائی کی بچت سے متعلق ہے۔جس کے تحت اب کی بار پھر وزرات توانائی نے بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں دکانیں اور کاروبار مغرب کے وقت بند کرنےکی تجویز پیش کی ہے۔ ذرائع وزارت توانائی کے مطابق تجویزپریکم اکتوبر سے 15 فروری تک عمل درآمد کا امکان ہے اور تجویز پر عمل درآمد کیلئے تمام چیمبرز آف فیڈریشن اور تاجر تنظیموں سے مشاورت شروع کردی گئی ہے۔ایسی تجاویز کئی بار دی گئی لیکن ہر حکومت نے تاجر مافیا کے آگے گھٹنے بھی ٹیکے اور معافیاں بھی مانگی ۔ جس کے بعد اب دوبارہ سے ایسی ہی تجاویز دوبارہ سامنے لانا سمجھ سے بالا تر ہے۔
ڈالر اور بجلی چوری کی روک تھام کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بار ان کو گرفت میں لانے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات لیے جا رہے ہیں جس کے مثبت اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں ۔ڈالر کی بات کی جائے تو اس پر قابو پانے کے لیے جب سے وفاقی حکومت نے انٹلی جنس ایجنسیون کی مدد سے کریک ڈاون کیا ہے اس کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ کا فرق سمت 3 سے 4 روپے تک باقی رہ گیا ہے ۔آج انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں 2 روپے 3 پیسے کمی آئی۔ ڈالرسستا ہو کر 304 روپے 95 پیسے کے ریٹ پر بند ہوا۔ دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 5روپے کمی آئی اور 307 روپے کے ریٹ پر فروخت ہوا۔ اس کے نتیجے میں اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق مزید کم ہو کر صرف 3 روپے رہ گیا، جو ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔دوسری جانب غیر قانونی منی ایکسچینجر کیخلاف بھی سخت کریک ڈاون جاری ہے۔ پشاور میں غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث 547 ڈیلرز کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 44 دوکانیں بھی سیل کر دی گئی ہیں ۔