(ویب ڈیسک)لاہور ہائی کورٹ نے غیر سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ کو منظم کرنے کے لیے 2022 میں وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی پالیسی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اور دیگر کی جانب سے ’2022 کی مقامی این جی اوز/این پی اوز کے لیے غیر ملکی فنڈز وصول کرنے کی پالیسی‘ کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں بنیادی طور پر وفاقی کابینہ کی ضروری قانونی منظوری کے بغیر اس پالیسی کو متعارف کروانے پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
یہ پالیسی بظاہر ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے ایک اقدام تھا جو ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تحت عدم تعمیل کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد پیش آئیں،اس پالیسی کے تحت وزارت اقتصادی امور (ایم او ای اے) کے ایک مجاز افسر جن کا عہدہ بی ایس 21 سے کم نہ ہو، غیر منافع بخش تنظیموں (این پی اوز) اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی وزارت کے ساتھ مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر عملدرآمد کے لیے درخواست کو منظور یا مسترد کریں گے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ پالیسی نے نمایاں طور پر سیکیورٹی ایجنسیوں کو ایک نگران کردار دیا ہے، جن کی شناخت واضح نہیں کی گئی، اس پالیسی میں یہ بھی ذکر کیا گیا تھا کہ مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے سے پہلے سیکیورٹی ایجنسیوں سے کلیئرنس حاصل کرنا ضروری ہوگا، درخواست گزاروں/این جی اوز نے دلیل دی کہ ان کی رجسٹریشن قانونی فریم ورک ’1860 کا سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ‘ کے تحت کی گئی ہے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ ان کے غیر ملکی فنڈز/عطیات وصول کرنے اور استعمال کرنے کے حقوق پر کوئی پابندی یا حد قانون کی منظوری کے بغیر عائد نہیں کی جا سکتی،ایچ آر سی پی کی وکیل حنا جیلانی نے نشاندہی کی کہ اس سے پہلے بھی 2013 میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ پالیسی کے ذریعے غیر ملکی فنڈز وصول کرنے والی تنظیموں کو منظم کرنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی تھی، لیکن اس پالیسی کو عدالتوں نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ضرورپڑھیں:عمران خان کے گرد مزید گھیراتنگ،وزیردفاع نے واضح اشارہ دے دیا
ڈپٹی اٹارنی جنرل، جو وزارت اقتصادی امور (ایم او ای اے) کے ایک افسر کی معاونت سے عدالت میں پیش ہوئے، نے وضاحت کی کہ وفاقی کابینہ اپنے انتظامی اختیار کے تحت پالیسی بنانے اور متعارف کروانے کی مجاز، اہل اور بااختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کا مقصد غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے وصول، جمع اور استعمال کیے جانے والے غیر ملکی فنڈز کو منظم کرنا تھا، سیکیورٹی ایجنسیوں کا کردار صرف قومی سلامتی اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے معاملات میں مدد فراہم کرنے تک محدود تھا، اور ان چیکس کی عدم موجودگی میں حکومت کو ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو کہ اگر حل نہ کی گئیں تو ملک کی مالی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
اپنے 16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس عاصم حفیظ نے مشاہدہ کیا کہ آئینی اسکیم وفاقی کابینہ کے ذریعے قانون ساز اختیارات کے استعمال کے بارے میں نہیں بتاتا، جب تک کہ یہ اختیارات قانون ساز اتھارٹی کے تحت استعمال نہ کیے جائیں، قانون سازی کے اختیار کے بغیر پالیسی سازی کرنا قانون سازی کے دائرہ کار میں تجاوز کو ظاہر کرتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے اپنے مشاہدے میں ریمارکس دیے وفاقی کابینہ کو بنیادی حقوق کو انتظامی کارروائی کے ذریعے محدود کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا جا سکتا، جب تک کہ ایسی کارروائی کسی قانون کی بنیاد پر نہ ہو۔
جسٹس حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ایک غیر قانونی اور غیر معقول گیٹ کیپر کے کردار کا تعین سیکیورٹی ایجنسیوں کو دیا گیا، جو تنظیم کی موزونیت اور مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کے مقاصد کا جائزہ لینے کے لیے تھا، بغیر یہ واضح کیے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کا عنوان یا تفصیل کیا ہے اور کس قانونی اختیار کے تحت ایسا کردار دیا جا سکتا ہے، درخواستوں کو اجازت دیتے ہوئے جج نے پالیسی کو غیر قانونی، کالعدم اور کوئی قانونی اثر نہ ہونے کا فیصلہ سنایا۔
ایچ آر سی پی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، اسے سول سوسائٹی تنظیموں اور شہری جگہوں کے لیے ایک اہم فیصلہ قرار دیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ بہت سی این جی اوز کی سرگرمیوں کو اس پالیسی نے محدود کر دیا تھا، جو بھاری شرائط عائد کرتی تھی اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو تنظیموں کو خودسر طور پر کلیئرنس دینے یا مسترد کرنے کا اختیار دیتی تھی۔