دنیا میں پاگل اور وہ کسی عشق میں پاگل لوگ خال خال ہی ملتے ہیں یہ جنس نایاب ہوتی چلی جارہی ہے لیکن اسی نایاب جنس کا ایک دانہ آج بھی موجود ہے اس عشقیہ پاگل کا نام فاطمہ قمر ہے جو پاکستان میں "نفاذ اردو " کی تحریک چلا رہی ہیں ، جناب عالی نفاذ اردو کی تحریک سپریم کورٹ سے فاؤنٹین ہاؤس پہنچ چکی ہے یہاں سے اسے پاگل خانے اور پھر میانی صاحب قبرستان کا سفر کرنا ہے جہاں ہم سب جی ہم سب تمام سیاستدان ، جج ، جرنیل ، صحافی ،افسر شاہی اکادمی ادبیات ، اکادمی اقبالیات اور انجمن فروغ اردو کے اراکین اس اردو کا جنازہ پڑھائیں گے اور پھر تزک و احترام سے اسے دفن فرمائیں گے اور پھر ہر سال اس کا دن منائیں گے، جھوم جھوم کر بچوں کو اردو کے قصے کہانیاں سنائیں گے،بتائیں گے کہ یہ وہ زبان تھی جسے خاص اس خطے کے لوگوں نے ایجاد کیا،ریختہ نام رکھا بیدل ، چچا غالب ، داغ دہلوی میر ، اقبال ، فیض ،منیر نیازی ، ، عصمت چغتائی ، قراۃلعین حیدر اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، منٹو ، احمد۔ندیم قاسمی ، امجد اسلام امجد ، اور جانے کون کون سے شاعر محقق ، افسانہ نگار اور شاعر پیدا کیے ، مولوی عبد الحق بابائے اردو ، مولوی میر حسن ، سر سید احمد خان جیسے لوگوں نے اپنی زندگیاں اس زبان پر وار دیں ، غالب نے لکھا کہ
طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خان قیامت ہے قیامت
اور داغ نے لکھا
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ساریے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
جناب چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب اس جاں بلب اردو کو آپ کی جانب سے دوا کی ضرورت ہے یہ زبان جو ہماری قومی زبان ہے کا پہلا فیصلہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کیا لیکن سازشی عناصر نے ان کے اس فیصلے کی مخالفت میں ملک دو لخت کروالیا۔ زبان لاگو نا ہونے دی قائد اعظم کے خطاب ڈھاکہ اور شیر بنگال اے کے فضل حق کا ری ایکشن ہی مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی بنیاد بنا ، جناب اعلی! چچا غالب کہہ گئے ہیں
مانا کہ تغافل نا کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہم آج بھی ایک بدیسی زبان کو گلے کا ہار اور اپنی زبان کو پاؤں کی جوتی بنائے ہوئے ہیں ملک میں دو نظام کیوں نا ہو جب اس ملک کے سارے برہمن انگریزی اور سارے اچھوت اردو بولتے سمجھتے ہوں مریض اردو کو بچانے کے لیے آپ سے پہلے ایک بڑے ڈاکٹر صاحب جسٹس جواد ایس خواجہ نے 8 ستمبر کو ملک بھر میں قومی زبان کو نافذ کرنے کا تفصیلی فیصلہ دیا اور شمع اردو کے دیوانے آج بھی اسی فیصلے کی خوشی میں ہرسال اس دن کو مناتے ہیں اس فیصلے سے اس مریض جاں بلب میں کچھ حرارت پیدا ہوئی لیکن بعد میں آنے والو نے اس فیصلے عملدرآمد کرانے کو اپنی توہین جانا ۔
جناب اعلیٰ!
آپ نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ اردو میں لکھوایا آپ بھی جانتے ہیں کیوں ؟ کیوں کہ اس ملک کے 23 کروڑ اردو بولنے والے ’شودر‘ اس فیصلے کو سمجھ سکیں آپ کو اپنی بات سمجھانے کے لیے اردو درکار تھی تو جناب ہمارا مقدمہ بھی یہی ہے کہ آپ جیسے صاحب فہم اور صاحب رائے انسان نے سمجھ لیا ہے کہ انگریزی الفاظ کو اردو میں ڈھال دیا جائے تو یہ عام فہم ہو جائے گا اس ملک کے پچاس فیصد عدالتی کیس 80 فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں گے لوگوں کو عدالت میں اپنی بات کہنے کے لیے وکیل کا سہارا نہیں لینا پڑے گا ،کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے نام درخواست لکھوانے کے لیے عرضی نویس تلاش نہیں کرنا پڑے گا۔ دنیا کی تمام قوموں نے اپنی زبانوں میں ہی ترقی کی یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی دوسری زبان کو خود پر لاگو کرکے آگے بڑھ سکیں کوئی ایک مثال ہو تو ضرور بتائیے گا ۔
جناب اعلیٰ!
8 ستمبر کے حوالے سے فاطمہ قمر پاگل خاتون نے لکھا ہے جو اردو کے عشق میں انگلش مخالف ہوئی اور وہ بھی اس قدر کہ بیٹے کو انگلش نہیں جرمن زبان سیکھائی اور یہ دونوں قومیں دو عظیم جنگیں لڑی چکی ہیں اسی سے اس خاتون کی انگلش دشمنی اور اردو دوستی کا اندازہ کیجئے ۔۔
جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب آپ بلوچستان سے ہیں ، صدر سندھ سے ، وزیر اعظم اور آرمی چیف پنجابی اور آپ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ باہمی رابطے کے لیے اردو سے جڑنا ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ تمام بڑی شخصیات جب ملتی ہوں گی تو اردو بولتی ہوں گی انگریزی نہیں لیکن تمام افسران اور اعلیٰ شخصیات جب ہم عوام میں آتے ہیں تو بدیسی زبان انگریزی بولنا شروع کر دیتی ہیں تاکہ کسی کو سمجھ آئے کسی کو نا آئے اور رعب بھی بڑھ جائے اور یہ احساس کمتری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انگریزی میں بولا گیا جھوٹ بھی یہ قوم سچ سمجھتی ہے اور آج بھی کہتی ہے کہ وہ لیڈر دیکھو کیسے فر فر انگریزی بولتا ہے اور فلاں لیڈر پڑھ کر جناب ان ’شودروں‘ کو تو یہ بھی احساس نہیں کہ وہ انگریزی پوجا میں قومیت کھو رہے ہیں ،انگریزی کا کیا ہے یہ تو انگلینڈ کے ہر کتے چیمپینزی کو بھی سمجھ آتی اور سمجھانے آتی ہے۔ نہیں آتی تو ہم پاکستان کے کروڑوں عوام کو نہیں آتی لیکن یہ زبان آزادی کے 76 سال بعد بھی ہم پر راج کر رہی ہے ہمیں پوری امید ہے کہ آپ کم از کم جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ عدالتوں پر لاگو کرائیں گے کہ اس ملک کی عدالتی زبان اردو تو سمجھیں ترقی شروع بسمہ اللہ کریں اور قومی تاریخ میں اپنا نام ایک قومی چیف جسٹس کے سنہری حروف میں درج کرالیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر