پیاری رضوانہ، تم مجھے نہیں جانتی، میں کون ہوں۔
شائد تب بھی نہیں جب میں شہر اقتدار کے ایوانوں میں، سپریم کورٹ میں، پی ایم ہاؤس میں دھواں دار رپورٹنگ کیا کرتی تھی اور تم ہُمک کے علاقے میں ایک جج کے بڑے گھر میں تعفن زدہ تشدد کیا وجود لیے گھر کا کام کیا کرتی تھی۔
رضوانہ ! میں نے جب تمہیں پہلی دفعہ موبائل میں دیکھا ویڈیو دیکھی تو یقین کرو میں کئی روز تک کچھ دیکھ نا سکی، تمہارے ٹوٹے پھوٹے لہو زدہ وجود کے زخم میری آنکھوں میں اتر گئے۔
سُنا ہے تمہارے سر کی زخموں میں کیڑے پڑ گئے تھے، ارے کیڑے تمہارے سر میں پڑے، کاٹنے میرے سر کو لگے، مجھے محسوس ہوتا رہا وہ کیڑے میرے دماغ میں پِھر رہے ہیں تو میں اپنے سر کو کئی بار آگے پیچھے جھٹک کر ان خیالوں سے نکلنے کی کوشش کرتی تھی۔
تمہاری پسلیاں ٹوٹیں، ہڈیاں ٹوٹیں، مجھے لگا میں لولی لنگڑی ہوگئی۔
میری ننھی پری ! میں نے تمہیں بہت سوچا، تمہارے لیے بہت دعائیں کیں، لاہور بھی آنا ہوا مگر ہمت نا ہوسکی کہ ہسپتال آکے تمہارا سامنا کروں، مجھے لگا تمہیں دیکھا سامنے تو زار و قطار بچوں کی طرح رو دوں گی، سب پوچھیں گے کیا لگتی ہے، کوئی اس ڈرامے ناٹک کا نام دے گا تو کوئی کچھ کہے گا۔
پیاری رضوانہ تم بہت بہادر بچی ہو، سوچتی ہوں جب لمبے ناخنوں سے تمہاری آنکھوں کو نوچا جاتا ہوگا، بال کھینچے جاتے ہوں گے، جب تمہاری پسلیاں توڑی گئیں، بدترین تشدد کیا گیا، تم کتنی بے بس ہوئی ہوگی نا، کتںی لاچاری سے بے بسی سے گھر کے کام کرتی رہی، آہ تک نا کی، تمہاری آواز تک نا نکلی مگر نہیں تمہاری آہیں، تمہارے دل کی تکلیف بے بسی نے عرش کو ضرور ہلایا ہے، تبھی تو تمہارا درد اتںا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے تو لکھنا آتا ہے میں لکھ لیتی ہوں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو لکھنا نہیں آتا مگر وہ تمہارے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں اور تمہارا درد بھی محسوس کرتے ہیں۔ مجھ سمیت ان سب کو معاف کر دینا۔ خدارا روز محشر کوئی سوال نا کرنا، گریبان نا پکڑ لینا، خدا کے سامنے رو نا دینا۔
میری پیاری رضوانہ ! معصوم پری ! پتہ ہے آج بہت چاہ کر بھی تھوڑا سا لکھنے کی ہمت کیسے ہوئی، جب تمہیں آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمد کے موقع پر مسکراتے دیکھا، ارے تم تو مسکراتی بھی ہو، تمہاری مسکراہٹ دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے آسمانوں کی اوٹ سے کسی فرشتے نے جھانکا ہو اور یقین دلایا ہو کہ تمہارا خدا بھولنے والا نہیں ہے، بے شک خدا بھولنے والا نہیں ہے۔
مجھے خوشی ہے، یقین ہے تم ٹھیک ہو جاؤ گی مگر کیا تم سوچ سکو گی کہ میرے سمیت کتنے لوگ تمہارے لیے پریشان رہے ہوں گے۔
قصور وار کون ہے؟ قانون و انصاف کی مسند پر بیٹھ کر فیصلے سنانے والے جج کی پڑھی لکھی بیوی یا رضوانہ کے والدین؟ یا چایلڈ لیبر ایکٹ پر عملدرآمد نا کروانے والے؟
قصور وار صرف ریاست ہے، رضوانہ کے گھر خوشحالی ہوتی تو والدین کبھی بھی اسے خود سے دور بھیجنے کا فیصلہ نا کرتے۔
آہ رضوانہ ! تمہارے والدین خود بھی اس دکھ میں جلے ہمیں بھی بھسم کیا، اب شرمندہ ہیں کہ بھوک سے کیوں ہارے بیٹی کو کیوں بھیجا نوکری پر۔ جج کی بیوی کی بھی کورٹ کچہریوں کے چکر لگا کے کسی حد تک عقل ٹھکانے آگئی مگر ریاست کا کیا ہوا ؟
اس ریاست سے کوئی جواب مانگے گا؟ اس ریاست کیخلاف کوئی سوموٹو ہوگا؟ اس ریاست کیخلاف کوئی ایکشن ہوگا ؟ کیوں رضوانہ کے والدین بھوک سے مجبور ہوئے ؟ ریاست جواب دہ ہے۔
خدا کا واسطہ ہے، یہ قوم بہت سی پریشانیوں میں پہلے ہی مری ہوئی ہے ہم پر معصوم رضوانہ کے دکھوں کے پہاڑ نا توڑو۔
ریاست ! اوہ ریاست تمہیں خدا کا واسطہ !
ارے کوئی اس ریاست سے بھی تو سوال کرے، اسکو بھی ٹھیک کر دے، اس میں بھی کیڑے پڑ گئے ہیں۔