2002 میں جو کالا قانون بنایا گیا اس میں ترمیم کی گئی: مریم اورنگزیب
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اویس کیانی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 2002 میں جو کالا قانون بنایا گیا اس کو ترمیم کیا گیا ہے۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل 2023 سینیٹ آف پاکستان سے اتفاق رائے سے منظور ہو گیا، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023 سینیٹ میں پیش کیا۔ مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023 پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی آر اے جو پریس گیلری میں بیٹھے ہیں تمام صحافتی تنظیمیں جو اس بل کا حصہ رہیں ان کو مبارک باد دیتی ہوں، 2002 میں جو کالا قانون بنایا گیا او کو ترمیم کیا گیا ہے، چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کا اختیار اسمبلی کو دے دیا ہے، اپریل 2022 میں پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کے عمل کا آغاز کیا، اس میں بہت سی شقوں کی تبدیلی ضروری تھی، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے، پی بی اے، ایمنڈ سمیت تمام میڈیا نمائندوں کے ساتھ مل کر اس پراسیس کو شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ،شہبازشریف کھل کر بول پڑے، اسمبلی تحلیل سے متعلق اہم بیان
انہوں نے مزید کہا کہ طویل مشاورت کے بعد مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن کو اس بل میں شامل کیا گیا، پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت چیئرمین پیمرا کسی بھی چینل کو بند کر سکتا ہے، معطل کر سکتا ہے، لائسنس منسوخ کر سکتا ہے، چلتے پروگرام کو بند کر سکتا ہے، چیئرمین پیمرا کے یکطرفہ اختیار کو اتھارٹی میں تقسیم کیا، کونسل آف اتھارٹی کو اختیار دیا، اس میں اپیل کا حق دیا گیا، الیکٹرانک میڈیا ورکرز کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، پیپرز ملازمین کے لئے آئی ٹی این ای کا پلیٹ فارم دستیاب تھا۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ پی ایف یو جے، پی آر اے، آر آئی یو جے سمیت مختلف نمائندوں سے مل کر اس ترمیم کو شامل کیا گیا کہ کوئی ادارہ ملازمین کے واجبات ادا نہیں کرتا تو حکومت انہیں اشتہارات نہیں دے گی، اگر کوئی ادارہ کم از کم اجرت ادا نہیں کرے گا تو اسے بھی حکومتی بزنس جاری نہیں کیا جائے گا، آئی ٹی این ای نے 9 ماہ میں 14 کروڑ روپے ریکور کر کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی، تین شقیں اس بل میں شامل کی گئیں، 12 ماہ اس پر مشاورت ہوئی، قومی اسمبلی میں 10 سے 12 دن تک یہ بل موجود رہا، وہاں اس پر بحث ہوئی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے یہ بل منظور ہوا۔
پیمرا ترمیمی بل سے متعلق مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس کے بعد یہ بل سینیٹ اجلاس میں پیش کیا گیا، میری درخواست پر یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تاکہ اس میں مزید رائے آ جائے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں چیئرمین پیمرا کی سلیکشن کا اختیار پارلیمان کو دینے کی رائے دی گئی، وزیراعظم نے اس ترمیم کی فوری منظوری دی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آگاہ کیا کہ دونوں شقیں قانون کا حصہ ہیں، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف کو 12 ممالک اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی ڈیفی نیشن سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے تیار کیا۔
انہوں نے بل پر ہونے والی تنقید سے متعلق کہا کہ پہلے کہا گیا کہ کسی کے اشارے پر یہ کالا قانون بنایا جا رہا ہے، میں نے ہمیشہ کہا کہ ترامیم دیں لیکن اسے میری ذات کا مسئلہ بنایا گیا، میں نے ہمیشہ تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کی ہے، سی پی این ای، ایمنڈ، پی ایف یو جے، پی بی اے کے لوگوں نے کمیٹی میں آ کر تصدیق کی کہ ہم نے اس بل کی تیاری میں مشاورت میں حصہ لیا، میڈیا نمائندوں نے کہا کہ بل حکومت نے پیش کیا ہے لیکن یہ میڈیا انڈسٹری کا بل ہے، میری قیادت نے اظہار رائے کی جنگ لڑی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی معیشت کیلئے اچھی خبر،سٹیٹ بینک نے اہم خبر شیئر کردی
مریم اورنگزیب نے پیمرا کے گزشتہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سابق دور میں چلتے پروگرام بند کر دیئے جاتے تھے، عرفان صدیقی کو ایک کالم لکھنے پر جیل بھیجا گیا، ہم ان مراحل سے گذرے ہیں، میری قیادت پر الزام لگایا گیا کہ ہم کالا قانون لا رہے ہیں، ہم آزادی اظہار رائے کو ختم کر رہے ہیں، بل کو پڑھے بغیر متنازعہ بنایا گیا، پریس گیلری میں پی ایف یو جے، پی آر اے سمیت تمام ورکنگ جرنلسٹس موجود ہیں، یہ بل ایک پراسیس سے گذر کر آیا تھا، اس بل کے خلاف پروپیگنڈا کر کے ورکرز کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے بل سے متعلق مزید کہا کہ ورکنگ جرنلسٹس کی جانب سے یہ بل پیش کروں گی، جب پی ایم ڈی اے بن رہی تھی اس وقت بھاشن دینے والے کہاں تھے؟ ہم پی ایم ڈی اے کے کالے قانون کے خلاف دھرنے دے رہے تھے، اس وقت یہ کہاں تھے؟ بل کو پڑھے اور سمجھے بغیر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔