پنجاب یونیورسٹی کا المیہ: وہ کون تھا؟
الطاف خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
پنتالیس برس قبل ڈیرہ غازی خان کے پسماندہ ترین گاؤں سے بس کی چھت پر بیٹھ کر لاہور پہنچ کر ایک مسجد میں رات بھر گزارنے والا نوجوان پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے پہنچتا ہے اور یہ نوجوان پھر پنجاب یونیورسٹی کے رئیس جامعہ کے منصب پر بیٹھ جائے تو یقیناً وہ مقدر کا سکندر ہے لیکن اگر مقدر کے سکندر کی بدولت جامعہ قسمت کی دھنی ہو جائے تو پھر المیہ جنم لیتا ہے، اس المیہ کی لپیٹ میں صرف علم کے متلاشی نوجوان ہی نہیں آتے بلکہ سماج میں بھی پراگندگی پھیلتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی، یوں تو برطانوی سامراج کی نشانی ہے لیکن یہ نشانی آسیب کی زدّ میں ہے، ایسا آسیب جو اسے مسلسل کھائے جا رہا ہے۔ یہ آسیب ہی ہے کہ یہاں کے اصل اسٹیک ہولڈرز طلباء نہیں بلکہ سیاسی، مذہبی و نام نہاد طلباء تنظیمیں بن چکی ہیں، یہ علم کی نہیں ایک دہشت کی آماجگاہ میں تبدیل ہوگئی، وہ دہشت جس نے علم کے برعکس پولیٹیکل فاشزم کی نرسری کا کام سر انجام دیا۔ ہر چار سال بعد، جامعہ کی قسمت کا ہما، یا تو محو پرواز ہوجاتا ہے یا پھر مقدر کے اُن سکندروں کے کاندھوں پر زبردستی بٹھا دیا جاتا ہے جس سے جامعہ کی قسمت کھوٹی ہوتی ہے۔
جامعہ کبھی ردّ آمریت کی پرچارک بنتی ہے تو کبھی یہ جامعہ طلباء تنظیم کے ذریعے سے ضیاء کی آمریت کا طاقت ور بازو بن کر نوجوانوں کی گردنوں کو دبوچنے کا دھرم اختیار کر لیتی ہے۔جامعہ نے ماضی کے جن تجربات اور سانحات کو جھیلا ہے ، اس سے یہاں کی ایک خاص پولیٹیکل اکانومی تشکیل پائی ہے، اس پولیٹیکل اکانومی میں حکومت ہمیشہ مفعول رہی ہے۔ لیکن آخر کون سے محرکات تھے کہ فاعل نادیدہ گروہ اور ملیشائی تنظیمیں بن گئیں اور مادّر علمی میں علم کے مقابلے پر بندوق، پستول، چھری، چاقو، استریوں اور مار دھاڑ کے کلچر نے اسے عقوبت خانہ میں تبدیل کیے رکھا۔ یہاں علمی استدلال ، تحقیقی زاویہ نگاروں اور علمی آوازوں کو ہمیشہ دبایا گیا اور وقت گزرتا گیا اور جامعہ کی قسمت کھوٹی ہوتی چلی گئی۔
لاہور کی سول بیوروکریسی اور حکومتی اشرافیہ، ہر چار سال بعد جامعہ کو نئی آزمائش سے دوچار کرتی ہے، حکومتی اقرباء پروری اور سفارشی کاندھوں سے پھر آئندہ چار سال کے لیے جامعہ آزمائش سے دوچار ہوتی ہے اور یوں نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کیا لاہور اور اسلام آباد کی ریاستی اشرافیہ جواب دے سکتی ہے کہ آخر وہ کون تھا کہ جس کی پالیسیوں کے باعث جامعہ دیوالیہ کے نہج تک پہنچ گئی؟ آخر وہ کون تھا کہ جس کی ناقص حکمت عملی و منصوبہ بندی نے 55 ہزار طلباء ، 1500 اساتذہ اور 5 ہزار ملازمین کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا؟ کیا اس جرم میں مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق شریک نہیں؟یا خود شہباز شریف جنھوں نے عمر سیف کو عقل بالغ سمجھ کر ایئر پورٹ پر وائس چانسلر تقرری کا فیصلہ صادر کیا تھا؟
جامعہ پنجاب سے بیوروکریٹس، با اثر افراد، سیاستدان سبھی اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے سیراب ہوتے ہیں لیکن یہ وطن، یہ دھرتی اور اس دھرتی کے نوجوان میں سیراب مقدر نہیں ہے۔جامعہ پنجاب، جو دس برس قبل، بجٹ میں سر پلس تھی، آخر وہ کون تھا جس سے نوبت یہاں تک پہنچائی کہ خزانے میں تنخواہوں کے پیسے دستیاب نہیں؟ ریسرچ کانفرنسز میں شرکت کے فنڈز منجمد، اساتذہ کے بین الاقوامی تعلیمی دورہ جات کا بجٹ منسوخ، طلباء کی سکالر شپ میں کٹوتی، اینڈومنٹ فنڈ جامد کر دیے گئے۔یاد رکھیے تعلیمی پسماندگی، علمی پسماندگی کو جنم دیتی ہے اور علمی پسماندگی سماجی پسماندگی کا موجب بنتی ہے اور جب اس کی سوتیں پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ سے پھوٹیں تو پھر المیہ نہیں سانحہ وقوع پذیر ہوتے ہیں جو سماج کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔
جامعہ کا بجٹ 18 ارب روپے مالیت تک پہنچ چکا ہے اور اس بجٹ میں ایک ارب پچاس کروڑ روپے مالیت کا خسارہ پیدا ہوچکا ہے، آئندہ چند سالوں میں پنشن کی مد میں یونیورسٹی کا بیس فیصد تک بجٹ خرچ ہوگا جس کے بوجھ تلے یونیورسٹی دب جائے گی۔ جامعہ کا نوجوان، ردّ عمل کا شکار ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کی پالیسی کے باعث جامعہ میں جو سیاسی پولرائزیشن ہوئی ہے اس سے جامعہ کے نوجوان کا علمی سفر، اذّیتوں کا شکار ہوگیا ہے، علم کی تازہ ہوا نہیں چلتی، یہاں پولرائزیشن کے باعث پتھر اینٹیں چلتی ہیں، یہاں ذہن چاک نہیں ہوتے بلکہ گریباں چاک ہوتے ہیں۔ کیا یہ سب رئیس جامعہ کی حکومت میں نہیں ہوتا؟ بدعنوانی کیا ہوتی ہے؟ یہ صرف مالی نہیں ہوتی بلکہ اخلاقی اور علمی بد عنوانی پیدا ہو جائے تو درس گاہیں علمی بانجھ پن کا شکار ہوجاتی ہیں جہاں سانس کے ساتھ آکسیجن نہیں بلکہ گرد و زہر آلود گیسیں جسم کے اندر داخل ہو کر انسانی نظام کو تہس نہس کر دیتی ہیں۔
جامعہ قسمت کی دھنی ہوتی ہے یا پھر مقدر کی سکندر، اس کا فیصلہ چند روز میں ہوجائے گا کیونکہ انتظار کے طویل 20 مہینے ختم ہونے کو ہیں اور کرسی تک پہنچنے کا دنگل شروع ہوچکا ہے، یہ دنگل علمی نہیں بلکہ سفارشی ہوگا اگر علم و اہلیت کی فتح ہوئی تو پھر جامعہ کا مقدر پاکستان کا مقدر بدلے گا اور اگر سفارشی ہوئی تو پھر وہی آمریت زدہ کہانی دہرائی جائے گی۔ یوں تو رئیس جامعہ کی تقرری کا کلی اختیار سرچ کمیٹی کے سپرد ہے، لیکن کیا یہ سرچ کمیٹی مافوق المعاشرہ ہے؟ سرچ کمیٹی کے پاس اُمیدواروں کی جانچ پڑتال کے لیے کاغذوں کی فائلیں ہوں گی یا وہ بیانیہ جو ممبران کے کانوں میں بار بار کی تکرار سے گونج رہے ہوں گے۔ کبھی یہ تکرار جید صحافی کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی یہ تکرار سیاست دان و با اثر شخصیات کی جانب سے ہورہا ہوتا ہے، ہر اُمیدوار کا اپنا گھوڑا ہے، کوئی عربی النسل گھوڑے پر سواری کر رہا ہے تو کوئی دیسی مقامی جانور پر سوار ہو کر شومئی قسمت کے لیے بے قرار ہے۔ جامعہ پنجاب میں رئیس الجامعہ کی تقرری میں جماعت اسلامی اور ن لیگ کے کردار کو نفی کر دیا جائے تو پھر یہ اُمید قوی ہے کہ یہاں اہل فرد ہی رئیس کے منصب پر بٹھایا جائے گا۔
سرچ کمیٹی کے پانچ ممبران، کسی فرد کی کاسہ لیسی کر کے قوم کے مقدر کو دریائے راوی میں بہاتے ہیں یا پھر قوم کے مقدر کو آسمان کی بلندی تک لے جانے کے لیے پُر عزم ہیں، ان کا فیصلہ ہی گواہی ہوگا۔ البتہ چند گزارشات کرنا از حد ضروری ہے: جامعہ پنجاب کی رئیس شپ کے لیے دوڑ میں شامل اُمیدواروں کے ماضی کو پرکھا جائے، کیا ماضی المناک ہے یا پھر تابناک؟ اور جامعہ کے مستقبل کو تاب ناک بنانے کے لیے سوالات کی نوک ہی اُمیدواروں کو پرکھنے کے لیے کافی ہوگی۔ اگر تو سوالات لابنگ گروپس کی ایماء پر تشکیل ہوئے، اگر تو سوالات فرد کے مفادات کے تابع استوار ہوئے، اگر تو سوالات طاقت ور سیاست دانوں کی باندی بن گئے تو پھر سرچ کمیٹی کے ممبران یاد رکھیں، جامعہ کا عذاب ان کی گردنوں کا عذاب ہوگا اور اس عذاب کی سزا صرف کوڑے نہیں ہوں گے۔ قوم کو سیاسی طور پر غلام بنانا اور جامعہ کو کسی ذیلی مذہبی و سیاسی تنظیم کا غلام بنانا دونوں فرعونی طرز فکر اور قارونیت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ قوم کی اُمیدیں گروی رکھنی ہیں یا پھر انھیں آزاد ہواؤں میں سانس لینے کی اجازت دینی ہے، یہ حاکم وقت پر ہے اور رئیس جامعہ کی تقرری کے معاملے میں یہ سرچ کمیٹی کے کنونیئر کے کاندھوں پر ہے۔
جامعہ کو علم کا گہوراہ بنانا ہے، جامعہ کو تحقیق کا مرکز بنانا ہے، جامعہ کو رواداری و بردباری کا پیکر بنانا ہے، جامعہ کو انتہا پسندی، دہشت گردی اور بلوائیوں سے بچانا ہے تو پھر یہاں نیوٹرل رئیس جامعہ تعینات کرنا بے حد ضروری ہے اور نیوٹرل رئیس جامعہ وہی ہوگا جس کے پاس نہ تو سیاسی سفارش ہوگی اور نہ ہی مذہبی تنظیموں کی سفارش۔ نیوٹرل رئیس جامعہ، اساتذہ کی دھڑے بازیوں، طلباء کی تنظیموں، کونسلز اور یونین سے آزاد ہوگا، نیوٹرل رئیس جامعہ قومی و سماجی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمہ وقت اپنی توانائیاں خرچ کرے گا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سرچ کمیٹی صلاحیت و اہلیت کو اوّلین ترجیح دے کر رئیس جامعہ کا انتخاب کرے اور سیاسی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ آزادانہ فیصلے کو قبول کرے۔ وگرنہ ہم مستقبل میں پھر وہی دہرائیں کہ آخر وہ کون تھا جس نے جامعہ میں تشدد، مالی بدعنوانی، اقربا ء پروری اور دیوالیہ پن کا شکار کیا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر