(ویب ڈیسک)آج کل پاکستان کے ہرگلی محلے میں بچوں کے ہاتھوں میں ایک خاص قسم کاکھلوناعام دکھائی دیتاہے جسے "کلیکرز"اورعرف عام میں "ٹک ٹک"کہتے ہیں،پلاسٹک کی دوگیندوں کو دھاگوں میں پِرو کر آپس میں باندھ کردونوں گیندیں ایک خاص طریقے سےاس طرح اچھالی جاتی ہیں کہ ’ٹک ٹک‘ کی آوازپیداہوتی ہے اوراسی آواز سے ہی اس کھلونے کا نام بھی "ٹک ٹک "پڑچکا ہے۔
"کلیکرز"نامی یہ کھلونا بظاہر سائنس کے انرجی،مومینٹم اور فریکشن کے بنیادی اصولوں کے تحت بنایاگیا ہے جس میں آپس میں جڑی دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے مسلسل اچھالا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اوران سے ایک ردھم بنتاہے، اس کھیل میں دونوں گیندوں کو کامیابی سے اس طرح اچھالاجاتا ہے کہ گیند ایک رفتار اورایک ہی انداز سے ٹکراتے رہیں اور ایک ردھم بنائے رکھیں، جوشخص اس عمل کو زیادہ دیر تک جاری رکھ پاتاہے اسے اس کھیل کاماہر کھلاڑی تصورکیاجاتاہے اورآج کل تواس کے مقابلےبھی منعقدہورہے ہیں جس میں جیتنے والوں کوانعامات سے نوازاجارہاہے۔
ّبظاہربے ضرردکھائی دینے والایہ سستاساکھلوناپاکستان کے ہرشہرمیں پھیل چکاہے ،اس میں شہراوردیہات کی کوئی تفریق نہیں ہے،لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں واقع کھلونامارکیٹ میں جائیں تو وہاں دکانوں کے باہراس کھلونے کے ڈھیرنظرآئیں گے جو تین مختلف سائزمیں دستیاب ہیں اورہول سیل مارکیٹ میں بڑاکلیکر70سے 75 روپے میں دستیاب ہے جبکہ گلی محلے میں واقع دکانوں پر یہ 150روپے تک فروخت ہورہاہے۔آج کل 14اگست کی مناسبت سے سبز اورسفیدرنگ کے کلیکرز بھی بہت زیادہ فروخت ہورہے ہیں۔
کسی وباکی طرح وائرل ہونے والے اس کھلونے کی ٹک ٹک سے والدین بھی خاصے پریشان نظرآتے ہیں کیونکہ ایک توہروقت اس کے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی کاحرج ہورہاہے اوربچے ہروقت اس کوہاتھوں میں لیے اس کاایک خاص ردھم بنانے کی مشق کرتے نظرآتے ہیں تو دوسری طرف اس کی مسسلسل ٹک ٹک شورمیں بدل جاتی ہے ،شروع شروع میں تو والدین خود بچوں کویہ کھلونالے کردیتے ہیں کہ اسی بہانے بچوں کی موبائل فون سے جان چھوٹے گی لیکن جب بچے ہروقت اس کوہاتھوں میں لے کر ٹک ٹک کرتےنظرآتے ہیں تو وہ عاجز آجاتے ہیں۔بچوں میں"ٹک ٹک"کاجنون ہے کہ رکنے نہیں پارہااوریہ ہرطرف وائرل ہوچکاہے۔
"ٹک ٹک" کے نام سے مشہور اس کھلونے"کلیکر "کوکچھ ممالک میں "لاٹو لاٹو" بھی کہا جاتا ہے،یہ کھلونااگرچہ پاکستان میں نیاآیاہے لیکن دراصل یہ نئی چیز نہیں ہے ،امریکہ میں 1960ء کی دہائی میں یہ بچوں میں بہت مقبول ہوا تھاجس کے بعد اگلے دس سالوں میں یہ دنیاکے دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیااور70ء کی دہائی کے اوائل تک یہ کھلونالاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوا۔
24 نیوز کے اینکر پرسن مناظر علی اور رپورٹر اسویٰ فاطمہ نے دلچسپ انداز میں کلیکلر نامی کھلونے کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے بچوں کا مقابلہ کرادیا ۔یہ جاننے کی کوشش کی کہ بچے اس میں کتنی مہارت رکھتے ہیں؟
مقابلے میں اینکر پرسن مناظر علی کی ٹیم بی نے اسویٰ فاطمہ کی ٹیم اے کو چند ہی منٹ میں ہرا دیا۔
یاد رہے کہ "کلیکرز "کاڈیزائن "بولیڈوراس "نامی ایک ہتھیار سے ملتاجلتاتھا جسے ارجنٹینی کاؤبوائے شکار کے لیے استعمال کیا کرتے تھے،اس وقت اس کھلونے کو لکڑی یا دھات سے بنایا جاتا تھا مگر سخت ایکریلک پلاسٹ زیادہ مقبول ہواتاہم پلاسٹک کے "کلیکرز" اکثر ٹکرانے پر ٹوٹ بھی جاتے تھے جس کے تیز ٹوٹے ہوئے ٹکرے بچوں کے لیے خطرے کا باعث بننے لگے تھے جس کی وجہ سے "چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ٹوائے سیفٹی ایکٹ" کے تحت "کلیکرز"کو بھی خطرناک کھلونوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوے اس پر پابندی لگادی گئی جس کے بعد یہ کھلونا امریکی مارکیٹ سے توغائب ہو گیا لیکن دنیاسے مکمل طور پر ختم نہ ہوسکا۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج کل یہ پاکستان میں ایک وباکی طرح وائرل ہوچکاہے،فرق صرف یہ ہے کہ آج کل جو"کلیکرز"بازار میں فروخت ہورہے ہیں وہ پرانے جان لیوا قرار دیئے جانے والے "کلیکرز "سے کسی حد تک مختلف ہیں کیونکہ ان میں جوپلاسٹک استعمال ہوتی ہے اس کے آپس میں ٹکرانے سے ٹوٹنے کا خدشہ بہت ہی کم ہے ہاں ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں یہ بچوں اور پاس موجود افراد کو نقصان ضرور پہنچا سکتے ہیں۔