(احمد منصور) مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ، ہیرا پھیری سے نہ جائے ، پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر بھی باز نہیں آ رہے اور ریاست کی بنیادیں ہلا دینے والی نسلی تعصب کی نئی آگ بھڑکا کر اپنی سیاست کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ رسی جل گئی بل نہیں گیا والا معاملہ ہے، سائفر سازش کیس میں سزا اور نااہلی کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور اپنے اس گھناؤنے منصوبے پر پشیمان ہونے کی بجائے موصوف نے خود کو ایک نیا شیخ مجیب الرحمٰن بنانے کی انتہائی خوفناک نئی سازش پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے، اپنی سیاست کیلئے ریاست کی سالمیت پر کیا گیا یہ حملہ اتنا زہریلا ہے کہ اگر اس زہر کو پھیلنے دیا گیا یا یہ زہر پھیلانے والے کو بروقت نشان عبرت نہ بنایا گیا تو یہ غفلت ایک اور شیخ مجیب الرحمٰن کی پرورش کے مترادف ہو گی، اللہ رب العزت ریاست پاکستان اور اس کے 25 کروڑ عوام کی حفاظت فرمائے۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مملکت خدادا پاکستان میں نسلی تعصب کی نئی آگ بھڑکانے کی اس گھناؤنی سازش کو انتہائی عیاری و مکاری سے اسلامی ٹچ بھی دیدیا گیا ہے ۔ بقول جمیل مظہری
’’کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی، جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی‘‘
پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے موجودہ عمل کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جو پیغام جاری کروایا ہے ، اس میں بین السطور چھپی سازش اس لرزہ خیز حقیقت کی عکاسی ہے کہ موصوف اپنے سیاسی عزائم کیلئے کس انتہا تک جا سکتے ہیں، انہوں نے افغان باشندوں کی اپنے وطن واپسی کے عمل کو متنازع بنانے کیلئے ریاست پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات اور ملکی ساکھ تک کو داؤ پر لگا دیا ہے، جو سیاستدان اپنے سیاسی عزائم کیلئے نسلی تعصب اور مذہبی جذبات بھڑکانے پر اس حد تک تل جائے اسے شیخ مجیب الرحمٰن کے پیروکار کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
پی ٹی آئی کی اس نئی انتہائی خطر ناک سیاسی واردات میں دیا گیا اسلامی ٹچ اس لئے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین جس خطے میں نسلی تعصب کی آگ بھڑکانے جا رہے ہیں وہاں کے عوام کی بڑی تعداد ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہے ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ تحریک انصاف کی طرف سے اسلامی اصطلاحات کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے عرصہ دراز سے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے ، برسوں پہلے پی ٹی آئی سربراہ کی فسطائی سیاست کو مقدس رنگ دینے کیلئے ریاست مدینہ کا بیانیہ گھڑا گیا، اسلامی ٹچ دے کر عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کیلئے 40 سال سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے سٹیٹس کو انبیاء کرام کی ہجرت سے ملایا گیا ہے،لیکن عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ حکومت پاکستان نے 40 سال سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو واپس بھجوانے کا فیصلہ ان کے کس قسم کی ناپسندیدہ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر کیا ہے ۔
اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کوئی اور سیاست دان ایسا پیغام جاری کرواتا تو اسے اس کی لاعلمی کی وجہ سے کسی حد تک بری الذمہ قرار دیا جا سکتا تھا ، لیکن ساڑھے 3 برس تک وزیراعظم کے انتہائی اہم منصب پر براجمان رہنے کی وجہ سے عمران خان تو ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ پاکستان میں کئی عشروں تک جاری رہنے والی لرزہ خیز دہشت گردی کی لہر میں غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کا کتنا اہم کردار رہا ہے۔
وزیراعظم کی حیثیت سے سابق پی ٹی آئی چیئرمین ایسی ان گنت بریفنگز کا حصہ رہے کہ جن میں پاکستان میں دہشت گردی کے لرزہ خیز واقعات میں غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کے بڑے پیمانے پر ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کئے گئے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے علاوہ منشیات و ہتھیاروں کی سمگلنگ ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سے لے کر سٹریٹ کرائمز تک غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کا ڈیٹا بارہا ان اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں پیش کیا گیا جن میں وزیراعظم کی حیثیت سے سابق پی ٹی آئی چیئرمین شریک ہوا کرتے تھے، اس کے باوجود ان کا اس معاملے پر آگ بھڑکانا ناقابلِ معافی حرکت کے سوا اور کیا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنگین سازش کو آغاز میں ہی سخت ایکشن لے کر کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے۔