14 دسمبر ہی کیوں ؟ مجیب الرحمان ٹو ،عمران خان اور حافظ قرآن
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان کی تاریخ میں دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے تو 53 سال گذرنے کے باوجود ہمارے وہ زخم جو اپنوں اور غیروں نے ملکر ہمیں لگائے تازہ ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے میری اس سے مراد سقوط ڈھاکہ سے ہے جس میں اپنوں شیخ مجیب اینڈ کمپنی ، مکتی باہنی اور غیروں بھارتی فوج نے ملکر معصوم بنگالیوں کے پہلے دماغ کی اور بعد ازاں خون کی ہولی کھیلی جس کا الزام پاکستانی افواج پر لگایا گیا ۔شائد میرے الفاظ میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے رہے لیکن آپ الیکٹرونک میڈیا کی زبان میں "فریم سے فریم ملا کر " یا کڑی سے کڑی جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو بات سمجھ میں آئے ۔
میں آپ کو پہلے مشرقی پاکستان لیے چلتا ہوں جہاں الیکشن کے بعد شیخ مجیب نے اسلام آباد کو دارالحکومت نا مانتے ہوئے اپنا الگ اجلاس مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بلا لیا مارچ میں شیخ مجیب گرفتار ہوئے اور اپنی گرفتاری کے بعد غدارِ پاکستان شیخ مجیب نے سول نافرمانی کا اعلان کیا بھارتی کیمپوں میں تیار کیے گئے مکتی باہنی کے تربیتی کیمپ بھارت کے مختلف شہروں اور علاقوں میں قائم کیے گئے تھے، جن میں مغربی بنگال کا دارالحکومت کلکتہ (اب کولکتہ) اور اس کے آس پاس کے علاقے خاص طور پر اہم تھے۔ اس کے علاوہ، ریاست تریپورہ اور میگھالیہ میں بھی کیمپ موجود تھے، کیونکہ یہ علاقے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے قریب واقع تھے اور وہاں سے علیحدگی پسندوں کو لاجسٹک اور عسکری مدد فراہم کرنا آسان تھا۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اور بھارتی فوج نے ان کیمپوں کو منظم کرنے اور مکتی باہنی کے ارکان کو تربیت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کیمپوں میں نہ صرف گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی بلکہ ہتھیاروں کے استعمال اور نفسیاتی جنگ کے حربے بھی سکھائے گئے۔ ان مراکز کا مقصد مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کو منظم کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:موہن داس کرم چند عمران گاندھی اور نمک حرام
مکتی باہنی، جو کہ 1971 کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیم تھی، کو بھارت کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ بھارتی فوج نے مکتی باہنی کے لیے تربیتی کیمپ قائم کیے، جہاں انہیں جنگی حکمت عملی اور گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی۔ ان کی کارروائیاں نہ صرف علیحدگی کی تحریک کو تقویت دیتی رہیں بلکہ پاکستان کے اندر انتشار اور خوف پیدا کرنے کا سبب بھی بنیں۔ مکتی باہنی کے کچھ گروہ پاکستانی فوج کی وردیاں پہن کر دیہاتوں اور قصبوں میں قتل عام کرتے تھے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ مظالم پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان کی بدنامی اور عالمی سطح پر علیحدگی پسند تحریک کو جائز ثابت کرنا تھا۔ بعد میں ان مظالم کے کئی شواہد سامنے آئے، جنہوں نے ان کارروائیوں کی حقیقت کو عیاں کیا۔ یہ حکمت عملی مکتی باہنی اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی ایک واضح مثال ہے، جس کا مقصد پاکستان کو تقسیم کرنا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنا تھا۔
اسی قتل و غارت گری کے نام پر جو مکتی باہنی نے کیا اور الزام پاکستانی افواج پر دھرا دینے کے لیے 14دسمبر کو بنگلہ دیش میں "یومِ شہدا" کے طور پر منایا جاتا ہے، 1971 کی جنگ کے دوران اس پراپگنڈا کو مزید تقویت دینے کے لیے دانشوروں، پروفیسرز، ڈاکٹروں، انجینئرز اور دیگر ماہرین کے قتل کی یاد میں مختص کیا۔ شیخ مجیب ایند کمپنی کا دعوی ٰتھا کہ یہ قتل پاکستان فوج اور اس کے حامی ملیشیا گروہوں کے ذریعے کیے گئے تھے تاکہ قوم کے ذہنی و فکری رہنما ختم کیے جا سکیں ، یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی ماعاشر کے اہم افراد کو پاک فوج کی وردیاں استعمال کر کے قتل کیا گیا اور الزام لگا کہ یہ پاک فوج نے کیا آج شیخ مجیب ایند کمپنی جب اقتدار سے ہٹی ہے تو قوم کی آنکھیں کھُلی کہ کیسے وہ اس پراپگنڈے کا شکار ہوکر اپنے بھائیوں سے جدا ہوئے اس پراپگنڈے کا استعمال اکثر پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کچھ حلقے اس دن کو سیاسی پراپیگنڈا قرار دیتے ہیں، جس کا مقصد دونوں قوموں کے تعلقات کو مزید خراب کرنا ہے۔ تاریخی حقائق اور دستاویزی شواہد کی جانچ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دعوے یکطرفہ بیانیے پر مبنی تھے جو را کی مدد سے شیخ مجیب نے تیار کیے ۔
یہ بھی پڑھیں:بشریٰ بی بی کا بیان اور ریکوڈک منصوبہ
اب آئیں موجودہ پاکستان میں کہ کیسے تحریک انصاف کے عسکری ونگ نے ایک سے زائد مرتبہ اسلام آباد میں موجود حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور چڑھائی کی مجیب الرکمان کی طرز پر عمران خان نے بھی سول نافرمانی کا اعلان کیا اور 14 دسمبر کی تاریخ خود ساختہ اسلام آباد کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مقرر کیا اصل میں اب کے بھی وہی ایجنسی را ہے اور وہی اپنے لوگ جنہیں منفی پراپگنڈے کا شکار کرکے افغان کیمپوں میں تربیت دی گئی ہے اور ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی کہانی دہرانے کا اعادہ کیا جارہا ہے لیکن اب کے کوئی یحیٰ خان جیسا عایش نہیں حافظ قرآن جرنیل ہے اب لوگ اس پراپگنڈے کو سمجھ چکے اب یہ کہانی دہرائی نہیں جائے گی بلکہ اس کہانی کے اہم کردار مجیب الرخمان ٹو (عمران خان) کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر