شام میں انقلاب،بشارالاسد کے بعد اقتدار کون سنبھالے گا؟

کوئی سیاسی جماعت یا کوئی سیاسی رہنما اقتدار کو نہیں سنبھالتا تو شام میں خانہ جنگی مزید بڑھ سکتی ہے،اِس ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آنا نا ممکن ہوجائے گا ،تجزیہ

Dec 09, 2024 | 21:13:PM

(24 نیوز)ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو  مٹ جاتا ہے،جیسا کہ بنگلادیش اور سری لنکا میں عوامی غیض و غضب کے ہاتھوں بڑے بڑے برج اُلٹائے گئے ،حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا پھر اِسی طرح سری لنکا میں راجہ پکشے خاندان جو دہائیوں سےا قتدار پر براجمان رہا اور اِس نے ملکی وسائل کو بے پناہ لوٹا اور عوام کو اُن کے معاشی حقوق سے محروم رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا اُن کو عوامی طیش کے نتیجے میں ملک چھوڑنا پڑا ،اور اب شام میں بشار الاسد کا 24سالہ اقتدار کا سورج بھی ڈوب چکا ہے اور وہ بھی عوام کے طیش سے بچنے کیلئے اپنے اہل خانہ کے ساتھ روس میں پناہ لے چکے ہیں ،بشارالاسد کے بعد اقتدار کون سنبھالے گا؟

 روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق بشار الاسد ملک سے فرار ہونے کے بعد ماسکو پہنچ گئے ہیں،بشارا لاسد کی جانب سےایچ ٹی سی نامی تنظیم کیخلاف کوئی مزاحمت نہیں کی گئی،کوئی گولی کوئی توپ چلے بغیر بشار الاسد ہتھیار ڈال کر ملک سے راہ فرار اپنا گئے ،عرب سپرنگ کے بعد سے شام میں 13 سال کی خانہ جنگی جاری تھی،جب عرب بہار سے متاثر ہوکر شام بھر میں مظاہرین نے سیاسی آزادی اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں بشار الاسد کی حکومت نے پرتشدد کریک ڈاؤن کیا جس پر خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔

یہ تنازع شدت پکڑتا گیا کیونکہ متعدد مخالف گروپس اُبھرے جبکہ غیر ملکی طاقتیں جیسے امریکا، روس،ایران اور دیگر اس میں ملوث ہوگئیں جنہوں نے بشار الاسد کو بھرپور سپورٹ کیا۔اس خانہ جنگی کے نتیجے میں 3 لاکھ 88 ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے،بشار الاسد نے اپنے ہی لوگوں کو ملک بدر کیا،انہوں نے ہی لوگوں کو قید میں ڈالا،اب بھی ویسٹ جرمنی میں 9 لاکھ 72 ہزار460 شامی پناہ گزین موجود ہیں ،ترکیہ اور رومانیہ میں مہاجرین کی الگ تعداد ہے ،اب بہت سے پناہ گزین واپس آرہے ہیں،بشار الاسد کے والد حافظ الاسد 30 سال تک شام کے اقتدار پر قابض رہے ۔

جب حافٖظ الاسد کا انتقال 10 جون 2000 کو ہوا،اُس وقت بشار الاسد کی عمر اس وقت 34 سال تھی اور اُنہیں صدر بنانے کے لیے آئین میں تبدیلیاں کرکے صدر کے لیے کم از کم عمر کی حد کو کم کیا گیا، جس کے بعد وہ صدر منتخب ہوئے کیونکہ ان کے مقابلے پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہوا،بشار الاسد نے اپنےا قتدار کو طول دینے کیلئے اپنی عوام پر جبر اور فسطائیت اپنائے رکھی۔جس کی وجہ سے شام کی معیشت کو بھی کافی نقصان پہنچا۔یہی وجہ تھی کہ وہاں کے عوام یہ چاہتے تھےکہ بشار الاسد اقتدار سےاُتر جائیں اور اب ایساہوچکا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ بشار الاسد کے جانے سے خطے پر کیا اثرات پڑیں گے ،یہ خطہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ شام کے ساتھ اسرائیل ،اردن ،عراق ایران کا بارڈر لگتا ہے،شام خطے کے اعتبار سے اہم ملک ہے،اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بشار الاسدکے بعد اِس ملک کی بھاگ دوڑ کون سنبھالے گا؟ظاہر ہے جو جنگجو ہیں جنہوں نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹا وہ سیاسی لوگ نہیں جو اقتدار کو سنبھال سکیں کیونکہ یہاں ایک سنگل پارٹی رہی،اگر یہاں پر باضابطہ طور پر کوئی سیاسی جماعت یا کوئی سیاسی رہنما اقتدار کو نہیں سنبھالتا تو شام میں خانہ جنگی مزید بڑھ سکتی ہے جس کی وجہ سےاِس ملک میں سیاسی اور معایش استحکام آنا نا ممکن ہوجائے گا ۔

مزیدخبریں