ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن: چیف جسٹس پاکستان
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے، موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ عدالت آرٹیکل 184 تھری پر محتاط رہے، عدالت آرٹیکل 184 تھری کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قرار دے گی تو معیار گر جائے گا۔
وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا اختیار عوامی معاملات میں ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں شدید سیاسی تناو اور بحران ہے، پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی، پی ٹی آئی نے پتا نہیں کیوں پھر پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کرلیا، درخواست گزار عمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے، عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، عدالت نے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے، عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے، ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی، آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین لاء تھا، عدالت نے 1993 میں قرار دیا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے، اس کیس میں عمران خان کا حق دعوی ہونے یا نا ہونے کا معاملہ نہیں بنتا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی شخص پارلیمان سے نکل کر عدالت آیا ہو، اس طرح سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص جب اقلیت میں ہے اور اس کے حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت کے علاوہ کہاں جائے ؟ جو بھی ضروری ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔
وکیل وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ انتخابات سے قبل قانون میں وضاحت ضروری ہے، پارلیمنٹ چھوڑنے کے بعد ملک میں انتخابات کیلئے ہر کسی کو ایک زائد نشست پر انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے، بھارت میں ایک شخص کو ایک ہی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہے، ایک سے زیادہ نشست سے انتخابات لڑنے سے ہار یا جیت کی صورت میں عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ذولفقار بھٹو نے ایک سے زائد سیٹوں پر انتخابات لڑے تھے، ذوالفقار بھٹو نے بلا مقابلہ نشست جیتی تو باقی انتخابات معمول کے مطابق ہوئے تھے۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ 1970 سے پہلے کا معاملہ تھا، عوام نے بھٹو کے بلا مقابلہ جیتنے کی بھاری قیمت ضیا کے 11 سالوں کی صورت میں ادا کی تھی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک عدالت جمہوریت نہیں بچا سکتی، 40 سال پہلے ایک بین الاقوامی اخبار میں آرٹیکل لکھا گیا، آرٹیکل کے مطابق لوگ سیاستدانوں کو اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں نا ہی ججز سے حکومت کرانا، عدالت حکومت نہ کرے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کوئی حکومت نہیں کرنا چاہتی، عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے، سیاسی خلا عوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے، جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتی ہے۔
دوران سماعت ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے ذکر ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کا فیصلے سے ہی ممکن ہے، موجودہ حکومت کے قیام کو آٹھ ماہ ہو چکے ہیں، الیکشن کمیشن نے اسپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022 میں عام انتخابات کرانے کیلئے تیار ہوں گے، موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھی گئی ہے، موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔