تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی سلطنت کی لنکا ڈھائی گئی ہے اس کے پس منظر میں کسی نہ کسی عورت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر ہو یا شہنشاہ بابر کہیں نہ کہیں سلطنت کی ساخت گرانے یا عروج دکھانے میں عورت کا کردار قابل غور و ذکر رہا ہے۔ مگر اس دور جدید میں عورت کا نام یا تو جھوٹی شو شا بڑھانے یا کردار کشی کے لئے عام استعمال کرنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں رہی مگر آج سے پہلے جتنے بھی معاملات ہوئے اس میں عورت کو شامل کر کے یا تو کسی کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کے رتبے میں چار چاند لگانے کے لیے ساتھ عورت کھڑی کر دی جاتی ہے ۔
مگر تاریخ جب بھی عورت کے بارے میں لکھتی ہے تو اکثر کسی نہ کسی بڑے شہنشاہ یا بڑے آدمی کے زوال سے ہی منسوب کرتی ہے اور یہ کوئی اتنی عجیب بات نہیں کیونکہ کئی لوگ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور کئی لوگ شرمندگی کے مارے خودکشی کر لیتے ہیں۔پاکستان میں اس کردار کشی کی گندی سیاست اور پروپیگنڈا کی صحافت سے عوام بے زار ہو چکے ہیں کیونکہ شاید کوئی ایک آدھ ہی حکمران ایسا بچا ہو جس پر کوئی ویڈیو نا وائرل ہوئی ہو یا کوئی عظیم عورت اس کے ساتھ منسوب نہ کی گئی ہو۔
چند روز پہلے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر میجر عادل راجہ کی جانب سے چار ٹاپ پاکستانی اداکاراؤں کی جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ساتھ نازیبا ویڈیوز کی موجودگی کے الزام نے شوبز حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ جس میں کسی ایک عورت کو نہیں بلکہ چار چار عورتوں کو پاکستان کے ایک عظیم رتبے کے ساتھ منسوب کیا گیا۔
کردار کشی انسانیت کی بدترین شکل اور گناہ ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک میں یہ روز کا معمول بن گیا ہے مردانہ جنگیں ختم اور عورت کارڈ کے استعمال سے زیادہ میدان مارے جانے لگے ہیں۔
اہم یہ نہیں کے کس کس ماڈل یا ایکٹر کا نام آیا ہے اہم یہ ہے کہ ہماری فوج بھی ہمارے سیاستدانوں کی ڈگر پر چل پڑی ہے دنیا میں ہمارا یا ہمارے ملک کی ساکھ کا کیا مذاق نہیں بنے گا۔
دنیا زمانے میں آرمی اپنے ملک کی طاقت کی نمائندگی کرتی ہے جس قدر مضبوط آرمی ہوگی اس ملک کی ساکھ کو اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ اور جس ملک کے آرمی چیف یا وہاں موجود ملک کی حفاظتی فورسز کے بارے میں ایسی ویڈیوز اور سکینڈلز کھلے عام مذاق کا مرکز بنے تو اس قوم کا دنیا صرف تماشہ دیکھتی ہے۔ اب کہیں آرمی چیف کو اچانک سے دیکھ کر ڈولا رے ڈولا گانے کا دل چاہے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اداکارہ مہوش حیات کو 2019 میں عمران دور میں ‘یومِ پاکستان’ کے موقع پر صدرِ ڈاکٹر عارف علوی نے تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں آنے والی اداکارہ سجل علی اور کبریٰ خان نے پاک فوج کے اشتراک سے بننے والے ڈرامے ‘صفِ آہن’ میں کام کیا تھا۔ پچھلے برس یوم شہدا کی ایک تقریب سے خطاب کرنے کے بعد جنرل باجوہ نے شرکاء میں موجود اداکارہ کبری خانم اور سجل علی سے جاکر ملاقات بھی کی تھی۔ شاہد ان ہی وجوہات کی بنا پر یہ اداکار آئے مرکزی کردار بن گئی مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی بغیر کسی ثبوت کے ان واقعات کی آڑ لے کر ملکی ساکھ پر ہاتھ ڈال دے۔
مانا کے اس ملک میں جو کام مرد نہیں کر سکتے وہ عورت کے زریع کروا لیے جاتے ہیں مگر الزامات لگانے سے قبل ثبوت سامنے لانے بہت اہم ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے کوئی بھی اس ملک میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے کیونکہ اس ملک میں قانون تو ہے مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خود نہیں جانتے کہ ان کے اختیارات کیا ہیں۔ اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال کرکے بڑی کرسیوں پر بیٹھے لوگ ملکی ساکھ کو مسمار کر رہے ہیں کیوں یہاں کوئی ایسا قانون موجود نہیں کہ کوئی بھی کسی کے متعلق کچھ بھی بول کر اپنی ذہنی تسکین حاصل کر لیتا ہے؟ کیوں پکڑ نہیں ان لوگوں کی جو وردی کا خمار لیے ہر جائز اور ناجائز کو اپنی طاقت کی لاٹھی سے دباتے رہتے ہیں؟ کیوں حساب نہیں ہوتا ان لوگوں کا جو طاقت کے نشے میں دھت اس خمار سے باہر نہیں نکل پا رہے کہ ہر غلط کام کی پکڑ ہے دنیا میں اگر وہ نہ پکڑے گئے تو آخرت سے کیسے فرار ہوں گے ۔
اس معاملے میں غلط جو بھی ہو میرے ملک کی ساکھ پر بہت اثر پڑا ہے میں نہیں جانتی کہ میجر عادل رانا صحیح ہے یا غلط مگر میں یہ ضرور جانتے ہوں کہ اگر وہ سچا ہے تو ثبوتوں کے ساتھ قانونی ایکشن لے کر اس پاک سرزمین سے ایسے منافقوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اور اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو اس کا ایسا انجام ہونا چاہیے کہ اس کے بعد کسی کو کسی کی کردار کشی کرنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑے۔