’8 فروری 2024کو الیکشن نہیں ہوں گے‘یہ وہ جملہ ہے جو مجھے اکثر لوگوں سے سسننے کو مل رہا ہے،یہ جملہ صرف ووٹرز ہی نہیں سینئر صحافی بھی کہتے پائے گئے ہیں جن کی انگلیاں حالات کی نبض پر ہوتی ہیں ۔گو مگو کی یہ کیفیت کیوں ہے؟لوگوں کو یقین کیوں نہیں کہ مقررہ وقت پر الیکشن ہوں گے۔حالانکہ الیکشن کمیشن نے مقررہ تاریخ پر عام انتخابات کروانے کیلئے کام مکمل کرلیا ہے،امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے ہیں ،ان کی جانچ پڑتال بھی ہوچکی ،اپیلیں بھی سنی جارہی ہیں ،چند دنوں میں امیدواروں کو انتخابی نشان بھی الاٹ کردیے جائیں گے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک دہائی سے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں،عام شہریوں کا تو حکومتی’بندوبست‘سے اعتماد اٹھ گیا ہے،سیاسی نظام ہویا انصاف کا نظام سبھی بے اعتبار ے ہوچکے ہیں،اب تک جتنے بھی سروے ہوچکے ہیں ووٹرز ووٹ ڈالنے سے انکاری ہیں ۔لوگوں کا خیال ہے کہ جب ’سلیکشن‘ہوچکی ہے تو الیکشن کی رسم پوری کرنے کا فائدہ ۔دوسرا یہ کہ عدم اعتماد کی تحریک سے جس شخص کو وزیراعظم ہاؤس سے فارغ کیا گیا اسے اب تک ان کے فالوورز کے دلوں اور ذہنوں سے نہیں نکالا جاسکا بلکہ ایسے لوگوں کو ’ظلم و جبر ‘سے مزید تقویت ملی ہے۔
ضرور پڑھیں:عمران خان مائنس ؟
ہمارے ملک کے حالات ایسے ہیں کہ کوئی بھی نہ اس کے موسم اور نہ ہی سیاست کا صحیح تجزیہ کرسکتا ہے،پل میں ماشہ،پل میں تولہ والی بات ہوچکی ہے،ہم دیوار کے پیچھے کھڑے ہیں اور آسمان نظر میں لانے کی جستجو ہے۔ بند گلی میں ہیں مگر نگاہیں منزل پر جمانے کی کوشش، ہم مسدود راہوں کے مسافر ہیں مگر زاد سفر ہاتھ نہیں۔دہائیوں سے پاکستان ’ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘کے بیانیے پر کھڑا ہے۔اس نازک دور کے بیانیے نے سوچنے،سمجھنے اور بولنے تک کی آزادی تک سلب کرلی ہے،یہاں جنہوں نے آزادی حاصل کی وہ محکوم ہیں اور جن کا بال تک بیکا نہیں ہوا وہ حاکم ہیں ۔
وطن عزیز اگر مگر میں گھِر چکا ہے، سوالات خدشات کا روپ دھارے سامنے آ کھڑے ہیں۔ اس برس معیشت کا کیا حال ہو گا؟ معاشی حالات یہی رہے تو کیا ہوگا؟غربت بڑھ رہی ہے جبکہ بڑھتا افراط زر انسانوں کو سستا کر رہا ہے۔ایسے میں پارلیمان کے ایوان بالا میں قرارداد پاس کی گئی ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ آگے کی جائے ،اس وقت الیکشن نہیں ہوسکتے۔الیکشن میں تاخیر چاہنے والوں کی قرارداد پر سونے کا سہاگہ یہ ہوا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے استعفیٰ دے دیا ہے،چونکہ الیکشن کمیشن 8 فروری کو الیکشن کروانے پر بضد ہے لیکن حالات اس کے مخالف رخ پر چل پڑے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوچکے ہیں ۔
عام انتخابات کو چند دن باقی ہیں لیکن نہ کوئی انتخابی مہم ہے نہ کوئی جلسہ جلوس،اجلاس ہیں یا پھر میڈیا پر جاری کیے گئے بیانات ۔مسلم لیگ ن جو اپنے آپ کو اس وقت سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کررہی ہے اور ساتھ یہ بھی دعویٰ کرتی نظر آتی ہے کہ اگلی حکومت ان کی ہوگی وہ بھی کچھوے کی چال چل رہی ہے،نظام سلطنت سنبھالنے کے خواہاں کچھوے کی چال نہیں چلتے وہ تو خرگوش کی طرح بھاگتے ہیں ،خوشی سے اچھل کود کرتے ہیں ۔جنہوں نے آنا ہے ان کو یقین نہیں تو جن کی پرچی نے لانا ہے وہ کیسے مان لیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ضروری نوٹ:ادارے کا رائٹر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر