شرح سود معاملے پرگورنر سٹیٹ بینک کو نہیں چھوڑیں گے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا کاکہناہے کہ شرح سود معاملہ سینیٹ خزانہ کمیٹی میں اٹھایا جائے گا، گورنر سٹیٹ بنک کو ہم چھوڑیں گے نہ باہر جانے دیں گے سات سو بلین کا بھی ایک سکینڈل ہے جس کے بارے میں حکومت کو کچھ علم نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر مانڈوی والا نے کہاکہ 900 بلین کے نئے ٹیکس موجودہ حکومت نے لگائے جن لوگوں کو ٹیکس دینا چاہئے وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ،پی ایم اور موجودہ حکومت نے زراعت پر توجہ نہیں دی ۔
رہنما پیپلزپارٹی نے کہاکہ گورنر سٹیٹ بنک کےخلاف درخواست دائر کی جا چکی ہے، ملک پر ڈاکہ مارا گیا ہے، شرح سود کا آئی ایم ایف نے کہا 12 فیصد کریں، اس حکومت نے شرح سود 13.5 فیصد کر دی، گورنر سٹیٹ بینک نے ایسا کیوں کیا؟۔
سینیٹر مانڈوی والا نے کہاکہ حکومت کو شرح سود ایڈجسٹ کرنے میں تین سو بلین روپے کا نقصان ہوا اسی وجہ سے باہر سے مہنگے دو بلین ڈالر منگوائے گئے، ہم گورنر کو سب کے سامنے لائیں گے ایسا کیوں کیا گیا، یہ معاملہ سینیٹ خزانہ کمیٹی میں اٹھایا جائے گا، گورنر سٹیٹ بنک کو ہم چھوڑیں گے نہ باہر جانے دیں گے،انہوں نے کہاکہ سات سو بلین کا بھی ایک سکینڈل ہے جس کے بارے میں حکومت کو کچھ علم نہیں ہے، پی ایس ڈی پی سے بڑا ٹیکہ گورنر نے ہمارے ملک کو لگا دیا ہے ۔
پی پی رہنما نے کہاکہ اس معاملے پر اب کوئی جوڈیشل کمیشن نہیں بنے گا بلکہ سینیٹ کی خزانہ کمیٹی اس کی تحقیقات کرے گی، ان کاکہناتھا پنشن ختم کرنے کے حوالے سے کہوں گا یہ قانون لانا ہو گا، سی پی اتھارٹی بل پر اپوزیشن نے واک آو¿ٹ کیوں کیا جانتا نہیں ہوں، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل بھی بند ہے ادارے بند کر دئیے ہیں اس حکومت نے، اس حکومت نے صرف ادارے بند کئے ہیں اور کچھ نہیں کیا۔
ان کاکہناتھا کہ ملک بھر سے نادرا کے ذریعے سے ٹیکس پیئر کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے، نوسو بلین روپے کے ٹیکس لگ چکے ،زراعت پر کوئی فوکس نہیں ہے، آصف علی زرداری کہتے ہیں اس ملک میں کوئی بھی چیز امپورٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے ،کوویڈکے دوران کاروبار بند ہو چکے ہیں، دنیا کے ممالک نے بزنسز کو بند نہیں ہونے دیا ان کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کیں روشن ڈیجیٹل پر سات فی صد ٹیکس لے رہے ہیں ریلوے کے ملازمین کی تنخواہیں وزارت خزانہ سے جاتی ہیں ریلوے کے اکاوئنٹ سے نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کو عہدے سے ہٹا دیا گیا