ڈبل گیم کا دوہرا عذاب
تحریر : نوید چودھری
Stay tuned with 24 News HD Android App
پچھلے سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد ہڑبونگ اور غیر یقینی کیفیت بھی جلد ہی ختم ہو جانا تھی - برا ہو ذاتی مفادات کے لیے ڈبل گیم کرنے والوں کا جس کے سبب حالات بدترین خرابی کی جانب آگئے اور 9 مئی جیسا سیاہ باب بھی ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا -
فوج کا اپریل 2022 کے بعد سے یہی دعویٰ رہا کہ ادارے کا اب سیاست سے کوئی تعلق نہیں - لیکن عملا ایسا نہیں تھا اسی لیے خرابی بڑھتی چلی گئی - جنرل باجوہ نے پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ختم کرانے کے لیے پرویز الہی کو پی ٹی آئی کے ساتھ بھیجا ، پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو مینج کیا اور پھر چیف جسٹس سمیت تین ججوں سے آئین ری رائٹ کراکے ملکی نظام کو جڑوں سے ہلا دیا - جنرل باجوہ ر مدت ملازمت میں مزید توسیع اور لفٹیٹنٹ جنرل ر فیض حمید نیا آرمی چیف بننا چاہتے تھے ۔ یہی وہ خطرناک ریس تھی جس کی وجہ سے فوج ، عدلیہ ، میڈیا ، بیورو کریسی ، کاروباری طبقات سمیت ہر شعبے میں مکس سگنل گئے اور شدید کنفوژن نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا -
دوسری جانب فارن فیکٹر پوری شدت سے حملہ آور ہوگیا - امریکی ارکان کا نگریس ، نیو کانز ، زلمے خلیل زاد ، آئی ایم ایف ، اسرائیلی لابی ،گولڈ سمتھ وغیرہ مل کر پاک فوج کے ادارے کو کمزور کرنے کے لیے حملہ آور ہوگئے ، 9 مئی کو آرمی چیف حافظ عاصم منیر کے خلاف بغاوت کرانے کی کوشش آخری کارڈ تھا جو ناکامی سے دوچار ہوگیا - بہت تلخ حقیقت ہے کہ فوج کی نئی قیادت کو پچھلی قیادتوں کی فاش غلطیوں کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے -
آزاد تجزیہ کاروں نے نئی آرمی کمانڈ کی آمد کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ صرف فوج کے غیر سیاسی ہونے سے کچھ نہیں ہوگا ، ٹاؤٹ جج ناسور ہیں تو حوالدار اینکر ،تجزیہ کار ، یوٹیوبرز گٹر کے کیڑے ،سیاسی جماعتوں، آزاد ججوں اور پروفیشنل صحافیوں کو کچلنے کے لیے کھربوں روپے کے سرکاری خرچے پر بنایا گیاسسٹم وہیں گھسیڑنا ہوگا ، جہاں سے نکال کر ملک میں افراتفری مچائی گئی - نظر آرہا ہے کہ اب اس حوالے سے بھی پالیسی بنا کر عمل درآمد شروع کردیا گیا کیونکہ اب ملک کسی نئی 9 مئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ، ہوسکتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ تفصیلات آپ سب کے علم میں ہوں پھر بھی لازمی ہے ریکارڈ درست رکھنے کے لیے اس کا بار بار تذکرہ کیا جائے تاکہ مجرم اپنے انجام کو پہنچ سکیں -
ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق “ افواج پاکستان پر اس منظم حملے کی سہولت کاری میں مبینہ طور پر سینئر عدالتی افسر ( جج ) طے شدہ منصوبے کے تحت شرپسندوں کیلئے سہولت کاری کر رہے تھے جو فوری ضمانت کی شکل میں تھیں۔ دو میڈیا چینلز کلی طور پر اور تین میڈیا چینلز جزوی طور پر سہولت کاری میں براہ راست ملوث رہے۔ 39یوٹیوبرز‘ 13ٹی وی اینکرز/صحافی کھلے عام اور 29مبینہ طور پر ڈھکے چھپے الفاظ میں انکی حوصلہ افزائی اور دفاع کر رہے تھے۔ ٹویٹر پر 427ہینڈلرز اور آٹھ سو روبوٹس کے ذریعے اس دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی ۔ 96فیصد ری ٹویٹس خودکار مشینی طریقہ سے پیشگی ادائیگی کے بعد حاصل کی گئیں۔ فیس بک پر 1380اکائونٹس مبینہ طور پر ملک دشمنی اور عداوت میں حد سے گزر رہے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے نصف سے زائد براہ راست انڈیا‘ یورپ اور امریکا سے کنٹرول ہو رہی تھیں۔ اس ساری کارروائی کا سرغنہ ایک خاتون کے ذریعے سے یہ رپورٹ پولیس لائنز اسلام آباد میں موجود عمران خان کو ایک سرکاری ملازم کے فون پر دیتا رہا۔ عمران خان نے اس ساری دہشت گردی پر مبینہ طور پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا اور منصوبہ کے سرغنہ کو شاباشی کا پیغام بھیجا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس خاتون کا کوڈ نام ’’اعظم سواتی‘‘ رکھا گیا حالانکہ سنیٹر اعظم سواتی کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اعظم سواتی نامی خاتون کے ذریعے ایک سینئر جج کے ساتھ واک کر کے اگلا تمام منصوبہ بشمول رہائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے لامتناہی ضمانتوں کا منصوبہ تیار کیا گیا اور بعد ازاں اس پر عمل کیا گیا۔ اس تمام کارروائی کے تمام مبینہ ثبوت اور ریکارڈنگز قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اکٹھا کر لئے ہیں۔ خفیہ اداروں کے مطابق ریاست پاکستان اور افواج پاکستان پر اس حملے کی منصوبہ بندی 13مارچ 2023ء کو کی گئی تھی۔ افغانستان‘ کرم ایجنسی‘ مالاکنڈ‘ سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تربیت یافتہ مبینہ دہشت گردوں کو 25اپریل سے پہلے پہلے مطلوبہ اہداف تک پہنچایا جا چکا تھا‘ گرفتاری اور رہائی محض ایک ڈرامہ تھا۔ تمام منصوبہ طے شدہ تھا اور اس پر ’’منظم فوجی حملے‘‘ کی طرح عملدرآمد کیا گیا۔
حملے کے اگلے دن پورے پاکستان میں بیس ہزار کے لگ بھگ لوک نکلے‘ ان میں مذکورہ بالا دہشت گرد شامل تھے۔ ان میں شہریوں یا تحریک انصاف کے حامیوں کی تعداد چار ہزار تھی اور تیسرے دن دہشت گردوں کی اکثریت روپوش ہو گئی اور صرف چند سو افراد پورے پاکستان میں نکلے‘ یعنی عملی طور پر دہشت گردی دم توڑ چکی تھ۔ یہ معلومات بتا رہی ہیں کہ یہ بغاوت کا مبینہ طور پر مکمل منصوبہ تھا جسے عوام کی مدد سے افواج نے ناکام بنایا” اس تمام معاملے میں ہم خیال گروپ کے ججوں کا جو کردار رہا وہ بے حد خطرناک تھا ، یہ طے کیا آرمی املاک پر حملوں کے بعد جنرل عاصم منیر پر دباؤ بڑھے گا تو اسی دوران سپریم کورٹ میں ایک فرمائشی درخواست دائر کرکے آرمی چیف کے تقرر کو چیلنج کیا جائے گا - 9 مئی کے فوری بعد جس طرح چیف جسٹس نے عمران خان کی رہائی یقینی بنا کر ریاست کو نیچا دکھایا اس سے متعلقہ حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی - بعد میں اسلام آباد اور لاہور کی ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں سے بھی نہایت بودے اور جانبدارانہ فیصلے ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب صرف حب عمران میں نہیں ہوا بلکہ بھاری رشوت نے بھی کام دکھایا - عدالتوں نے چیف جسٹس بندیال کی ساس کے “ ڈاکٹرائن “ پر عمل کیا جن کا کہنا تھا “ کمبخت مارشل لا بھی تو نہیں لگا رہے “ ہم خیال ججوں نے اور ان کے زیر اثر ماتحت عدالتوں نے بھرپور کوشش کی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو ہرایا نہیں جاسکتا تو شدید اشتعال دلوا کر مارشل لا لگانے پر مجبور کردیا جائے - مگر یہ چال بھی کامیاب نہ ہوسکی -اب سپریم کورٹ تو کسی حد تک پسپائی اختیار کررہی ہے لیکن اب یہ ضروری ہوچکا ہے عدالتوں میں موجود ثاقب نثار اور فیض باقیات کا صفایا کیا جائے -
میڈیا کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے اثرات تو واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں - اب توقع کی جارہی ہے کہ عدالتوں کے حوالے سے بھی ماحول تیزی سے درست ہوتا نظر آئے گا -سیاسی لوگ ہوں یا عدلیہ کے افراد کسی کو بھی این آر او دینا کسی طور مناسب نہیں ہوگا - آہنی ہاتھ کا مطلب یہی ہے کہ سامنے جو بھی قانون شکن نظر آئے اسے قانون کی طاقت سے روند ڈالا جائے - ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ملک میں فساد پیدا کرنے کے سوچے سمجھے منصوبے میں ملوث مقدس گائے کا تاثر رکھنے والے ادروں کے سابق و حاضر سروس افسروں یا ان کے اہل خانہ کو کوئی رعائیت دی جائے -9 اپریل 2022 سے اب تک ملک میں ساری غیر یقینی صورتحال عدالتی فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی -حتی کے 9 مئی کے خوفناک منصوبے میں بھی عدالتی کرداروں کی نشاندہی ہورہی ہے - یہ فوج میں بغاوت کراکے خون خرابے کے بعد ملک کو توڑنے کا منصوبہ تھا جس کے کسی بھی کردار کو معافی نہیں دی جاسکتی -میڈیا کے بعد سوشل میڈیا اور سب سے بڑھ کر عدالتوں کو قانون کے دائرے میں لانا ضروری ہے لیکن اگر بغاوت کی اس سازش میں براہ راست شامل کرداروں کا احتساب نہ کیا گیا تو یہ سانپ کو دودھ پلانے کے مترادف ہوگا - جنرل ر باجوہ اور لفٹیٹنٹ جنرل ر فیض حمید کی ڈبل گیم نے ملک و قوم کا کباڑا کردیا - یہ لازم ہوچکا کہ یکسوئی کے ساتھ پالیسیاں بنا کر آہنی ہاتھوں سے عمل درآمد کرایا جائے - بیرونی عناصر کی دھمکیوں اور شور وغوغے کو مکمل طور پر مسترد کرنا ہوگا - ڈبل گیم کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی -یہ بات بالکل واضح ہے کہ جنرل ر باجوہ مدت ملازمت میں مزید توسیع کے لیے ڈبل گیم نہ کرتے تو پراجیکٹ عمران پی ٹی آئی کے خاتمے کے ساتھ ہی انجام کو پہنچ جاتا ، مگر ڈبل گیم کے شرمناک فعل کا دوہرا عذاب قوم کی قسمت میں لکھا تھا - اس تمام عرصے میں جو تا قابل تلافی نقصان ہو چکا اس کا ازالہ اگلے کئی سالوں تک ممکن نہیں - ہاں مگر ذمہ دار کرداروں کا کڑا احتساب مستقبل کے حوالے سے بڑی حد تک خدشات کو کم کرسکتا ہے - سخت ترین ایکشن صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے -