باادب باملاخظہ ہوشیار! عمران خان تشریف لاتے ہیں 

Jun 09, 2023 | 14:40:PM
باادب باملاخظہ ہوشیار! عمران خان تشریف لاتے ہیں 
کیپشن: فوٹو 24 نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

آپ کے کانوں میں یہ آواز آتی ہو یا نہ آتی ہو لیکن ان آوازوں کی گونج ابھی بھی چند افراد کے کانوں سے ٹکڑاتی ہے ’بادب با ملاخظہ ہوشیار! نگا ہ روبرو شہنشاہ ریاست پاکستان جناب عمران خان تسریف لاتے ہیں‘۔ 

یہ سب آج 2023ء میں بھی 2021 ء میں زندہ ہیں اور بقول ہمارے دوست نعیم گیلانی کے ہم سب کو ایسے افراد کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے اور اپنے گرد ونواح میں موجود ایسے افراد کے سامنے صرف ایک گھنٹے کیلئے ایسا انداز اپنانا چاہیئے کہ جیسے ہم سب آج بھی 2021ء یا 20ء میں زندہ ہیں، چہار جانب چرند ، پرند اور درند سب ایک ہی نمغہ گنگنا رہے ہیں ’روک سکو تو روک لو نیکسٹ سٹیپ اڈیالہ‘۔ دوست کا خیال یہ ہے کہ جس طرح کے ذہنی دباؤ سے عمران خان نے اپنے چاہنے والوں، کو گزارا ہے اس سے  واپس لانے کیلئے یہی ایک مجرب نسخہ ہے وگرنہ یہ سب اریبین نائٹس کی کہانی ’حمام بازگشت‘ کے قیدی رہیں گے جہاں پھنسنے والا تا عمر ایک ہی آواز لگاتا ہے، ’ایک بار دیکھا ہے بار بار دیکھنے کی تمنا ہے‘۔

انہیں انسانی کفیت میں واپس لانا ہوگا تو وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا کہ جیسے نشے کے عادی افراد کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے نشئیوں کو گر ایک ہی مرتبہ نشہ چھڑا دیا جائے تو وہ مر بھی سکتا ہے۔ بین ایسے ہی عمران خان کا نشہ کرنے والوں کو بھی کچھ موقع دینا چاہیئے کہ وہ معمول کی زندگی میں واپس آسکیں۔

یہ بھی پڑھیے: عمران خان کے میگا پراجیکٹ (اے کوئی مذاق اے)

میں نے نعیم گیلانی کی اس بات پر جتنا غور کیا اتنا ہی میں اس بات کا قائل ہوتا گیا کہ طریقہ یہی درست ہے کہ عمران خان اُن کے حواری جرنیلوں، ججوں اور صحافیوں نے ملکر جو نسل تیاری کی ہے اسے ایک ہی دن میں واپس معمول کا عام انسان نہیں بنایا جاسکتا اس کیلئے بحثیت مجموعی ہمیں قومی فکر کو ابھارنا ہوگا یہ سب اپنے بھائی بند ہیں، یہ جیسے آج ہیں یہ ایسے تو کبھی بھی نہ تھے، انہیں 22 سال تک یہ سبق پڑھایا گیا کہ اس ملک کو صرف سیاستدانوں نے لوٹا نواز شریف چور، زرداری ڈاکو، باریاں لگی ہوئی ہیں، یہ اپنا پیسہ واپس لے آئیں تو ملک کا قرضہ اتر جائے گا، یہ ملک کو آئی ایم ایف میں لیکر گئے۔

عمران خان نے خود یہ سبق بارہا دہرایا کہ میں قرض لینے کے بجائے پھانسی چڑھنا پسند کروں گا، ملک کو ریاست مدینہ ماڈل کے تحت جدید تقاضوں کے مطابق استوار کیا جائے گا۔ 100 افراد پر مشتمل ایسے افراد کی ٹیم بلائی جائے گی  جو دنیا بھر میں پاکستان کی معیشت کو نمبر ون بنائے گی، گرین پاسپورٹ کو اتنی عزت ملے گی کہ جس ملک میں بھی جائے گا وہاں اسے ایئرپورٹ پر ہی ویزہ اور انٹری دے دی جائے گی، پاکستان قرض لینے والا نہیں قرض دینے والا ملک بن جائے گا، بیرون ملک سے لوگ نوکری کی تلاش میں پاکستان آئیں گے، امیروں سے دولت چھینی جائے گی غریبوں میں بانٹی جائے گی۔ اس بیانیے کی تشہیر کیلئے میڈیا میں ایسے بونوں کا نزول کریا گیا جن کا صحافت برائے اصلاح سے نہیں صحافت برائے فساد سے تعلق تھا، موٹر سائیکل پر نوکری کرنے والے صحافی اینکر بنائے گئے اور کروڑوں میں کھلائے گئے، جعلی فائلوں کے زور پر سب کو ایک ہی پٹی پڑھائی گئی کہ صرف عمران خان ہی ہے جو ملک کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔

یہ سب بیانیہ بنانے کیلئے اندرون و بیرون ملک کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کیے گئے، سب کو غدار اور ایک کو ایماندار بنانے کیلئے سپریم کورٹ سے لیکر لوئر کورٹ، ہائی سکول سے لیکر یونیورسٹی، پرچون فروش سے فیکٹری مالکان سب کو اس بیانیہ کا سبق ایسے پڑھایا گیا کہ ایک شکار باقی شکار تلاش کرکے لاتا، جعلی سروے رپورٹس اور میڈیا پر صرف ایک بیانیے کو چلانے کیلئے کیا کچھ خرچ نہیں کیا گیا، دولت، ہوس کا پانی اور انسانی خون بہانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: نام لیا تو زبان 40 دن ناپاک رہے گی 

یہ سب کچھ چند دنوں یا ماہ میں مکمل نہیں کیا گیا، اس کیلئے سالوں خرچ کیے گئے، خوبصورت خواتین کو استعمال کیا گیا، کچے ذہن خوبصورت عورت اور روشن مستقبل کو دیکھ کر مشہور انگریزی کہانی ’پائپ پائپر‘ کے چوہے بنتے چلے گئے، کہانی یاد ہے نا کہ ایک گاؤں میں چوہوں نے خوب دھما چوکڑی مچا رکھی تھی تو ایک پائپ بجانے والے نے ایسی دھن بجائی کہ چوہے اس کے پیچے چلتے چلتے گہری کھائی میں جا گرئے۔

9 مئی کے واقعات کا بھی بغور جائزہ لیں تو آپ کو پائپ پائپر والا اور چوہے صاف نظر آنا شروع ہوجائیں گے لیکن ہماری قسمت اچھی کہ اب کے سب فتنہ پردازی کی اس دھن پر گہری کھائی میں نہیں گرے، ابھی بڑی تعداد ایسے کرداروں کی ہے جنہیں اس وقت ہماری مناسب دیکھ بھال اور ہمدردی کی ضرورت ہے، جس سے وہ واپس انسانوں میں شمار ہونے لگیں۔

یہ بھی پڑھیے: کس دل سے کہیں تم کو عمران خدا حافظ 

مجھے تو نعیم گیلانی کی تجویز سے سو فیصد اتفاق ہے ہمیں اپنے ان قابل علاج دوستوں کے سامنے روزانہ کہنا ہوگا ’بادب باملاخظہ ہوشیار! نگا ہ روبرو شہنشاہ ریاست پاکستان جناب عمران خان تسریف لاتے ہیں‘

یہ کہتے ہوئے ایک گھنٹہ 2020ء اور 21ء میں جانا ہوگا، عمران خان ریاست مدینہ بنا رہے ہیں، سمندر میں سے گیس نکال رہے ہیں، گورے نوکریوں کیلئے پاکستان آرہے ہیں، 350 ڈیم بن چکے ہیں، 75 میگا واٹ بجلی پانی پر تیار بیٹھی ہے، جرمنی جاپان کے ساتھ سرحدوں کو ملائے ہوئے ہے، ہر گھر میں کٹے، مرغی اور انڈے وافر مقدار میں موجود ہیں، 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ہیں۔ 

یہاں سے شروع کریں گے اور آہستہ آہستہ اس دورانیے کو کم کرتے چلے جائیں گے تو سال دو سال میں یہ سب جو اب ناقابل علاج سمجھے جاتے ہیں قابل علاج ہوجائیں گے۔ بس کبھی کبھار پرانی یادوں کو یاد کرلیں گے تو آپ کو اُن کی دلجوئی کرنا ہے دل دکھانا نہیں ہے۔

Amir Raza Khan

عامر رضا خان سٹی نیوز نیٹ ورک میں 2008 سے بطور سینئر صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے۔ 26 سالہ صحافتی کیریر مٰیں کھیل ،سیاست، اور سماجی شعبوں پر تجربہ کار صلاحیتوں سے عوامی راے کو اجاگر کررہے ہیں