(24نیوز)مسلم لیگ (ن) نے چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنا پورا زور لگا لے شہباز شریف اپنے طبی معائنے کیلئے بیرون ملک جائیں گے اور واپس بھی آئیں گے ، وفاقی وزرا کالاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر رد عمل اور شہباز شریف کو باہر جانے سے روکنا توہین عدالت او رعدلیہ پر حملہ ہے ، ہم اس کیلئے تحرک کرینگے اور امید ہے کہ عدلیہ بھی از خود نوٹس لے کر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر ے گی ،لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے اپنے متفقہ فیصلہ میں کہا ہے کہ نیب نے اعتراف کیا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی،کوئی کیک بیک نہیں لی ،شہباز شریف نے کوئی غیر قانونی فنڈ حاصل کر کے اثاثے نہیں بنائے پھر اس کے بعد رہ کیا جاتا ہے ۔
فاضل عدالت نے کہا ہے کہ الزام لگانا کافی نہیں ہے آپ کے پاس 55والیمز ہوں یا5500والیمزہوں وہ کافی نہیں ان کے اندر کچھ ہونا بھی چاہیے ،ہم آپ کے الزامات کو سچ نہیں مان سکتے کیونکہ آپ نے ثبوت بھی دینا ہے ، جب آپ ثبوت نہیں دیں گے تو ان والیمز کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،نیب کا چیئرمین آئین و قانون سے باہر نہیں ہو سکتا ، جو آج غیر قانونی کام کر رہے ہیں وہ کل پہلی فلائٹ سے باہر نہیں جائیں گے ان کو یہاں پر جواب دینا ہوگا ،چیئرمین نیب کو یہ تو نظر آ جاتا ہے کہ میں نے پی ایس او کا ایم ڈی لگایا تھا لیکن چینی کے معاملے پر پانچ سو ارب کی کرپشن نظر نہیں آتی ،ایف آئی اے گئے تو ہمارے ہاتھوں میں کون سی توپ اورڈنڈے تھے ، چیلنج کرتے ہیں مقدمہ درج کرائیں ہمیں ڈرنے والے نہیں، اگر ایف آئی کے دفتر پر حملہ ہوا ہے تو اس کے ثبوت دیں ہم جواب دیں گے، حکومت نے جو کرنا ہے کر لے ہم مقابلہ کرلیں گے۔
ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی ، سیکرٹری جنرل احسن اقبال ، پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان اورمرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاﺅن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر عطا اللہ تارڑ ، عظمیٰ بخاری اور دیگر بھی موجود تھے ۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ تین سال سے ملک میں وزیر اعظم ہوں وزیر یا مشیر کرپشن کی بات کرتے ہیں کہ کرپشن بڑی ہو رہی ہے لیکن الزام (ن) لیگ پر لگایاجاتاہے، مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں پانچ سال حکومت کی اگر ہم نے کوئی کرپشن کی ہے تو عمران خان اور کرائے کے وزرا کو چیلنج ہے کہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آئیں ہم لائیو جواب دیں گے،شہباز شریف نے دس سال لگا تار پنجاب کی خدمت کی ان کے کام کی ان کے بد ترین سیاسی دشمن بھی تعریف اور اعتراف کرتے ہیں ، ان کے کاموں کی وجہ سے آج پاکستان نے بھی ترقی کی اور پنجاب نے بھی ترقی کی ہے ، شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف بنے ابھی تین سال پورے نہیں ہو ئے لیکن انہوں نے آدھا عرصہ نیب کے ریمانڈ او رجیل میں گزارا ہے ، اس بات کا جواب دینے والا کوئی ہے کہ ان کو کس جرم پر نیب کے ریمانڈ میں دیا گیا اور جیل میں ڈالا گیا ، کبھی صاف پانی کبھی آشیانہ کبھی منی لانڈرنگ کی باتیں کرتے ہیں ،کبھی بے نامی کی ،کبھی ٹی ٹی کی باتیں کرتے ہیں ، ایسا کون سال الزام ہے جو شہباز شریف پر نہیں لگایا گیالیکن سارے معاملے کی حقیقت شہباز شریف کی ضمانت کے حوالے سے عدالت کے تحریری فیصلے میں موجود ہے ،عوام بھی جاننا چاہتے ہیں یہ جو تین سال سے الزامات ہیں لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ۔
ان کی حقیقت لاہور ہائیکورٹ کے تحریر ی فیصلے میں موجود ہے ، یہ میں خود نہیں کہہ رہا بلکہ یہ لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے اس سے اقتباسات بیان کر رہا ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ کا تین رکنی فل بنچ اتفاق رائے سے کہہ رہا ہے کہ نیب نے ہمارے سامنے اعتراف کیا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی،نیب نے اعتراف کیا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی کیک بیک نہیں لی ، نیب نے اعتراف کیا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی غیر قانونی فنڈ حاصل کر کے اثاثے نہیں بنائے ،پھر اس کے بعد رہ کیا جاتا ہے ، کونسا الزام ہے ، یہ سب نیب اعتراف کر رہا ہے ، عدالت کہتی ہے کہ الزام لگانا کافی نہیں ہے آپ کے پاس 55والیمز ہوں یا5500والیمزہوں وہ کافی نہیں ان کے اندر کچھ ہونا بھی چاہیے ،ہم آپ کے الزامات کو سچ نہیں مان سکتے کیونکہ آپ نے ثبوت بھی دینا ہے ، جب آپ ثبوت نہیں دیں گے تو ان والیمز کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ انکم ٹیکس گوشوار ے میں جو ظاہر شدہ ہوتا ہے اسے حقیقت مانا جا اہے ، عدالت نے یہ بھی کہا کہ نیب نے یہ بات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ شہباز شرف کے ذرائع آمدن کیا ہیں ، جب آپ نے یہ کوشش ہی نہیں کی تو پھر آپ آمدن سے زائد اثاثوں کی بات کیسے کر سکتے ہیں،یہ ساری بات الزامات ہیں کہ سیاسدانوں نے آمدن سے زائد اثاثے بنا لئے ہیں ،جب کوئی کرپشن نہیں کی کک بیکس نہیں لیں ، غیر قانونی پیسے حاصل نہیں کئے ، آپ نے ذرائع آمدن نہیں ڈھونڈے تو پھر آپ الزامات کئے لگا سکتے ہیں۔ یہ سوال عدالت کر رہی ہے کہ اگر ایک گھر میں چند لوگ اکٹھے رہتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ڈیپٹنڈ نہیں بن جاتے ، اپنے اپنے ذرائع آمدن او رکاروباری معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ میں خود تین سال سے یہ تماشہ خود دیکھ او ربھگت رہا ہوں۔ یہاںرنگ برنگے وزیر ہیں جو ٹی وی پر آ کر ہر قسم کا الزام لگاتے ہیں کہ ہمار ے پاس کتابوں کے ڈھیرے ہیں ثبوت ہیں لیکن کہاں ہیں وہ ثبوت ؟۔ شہباز پر الزام لگانے والے آدمی سے کہوںگا لاہور شہر میں چلے جائیں کسی سے میاں شریف صاحب کی شہرت کا پوچھ لیں کہ وہ کیا تھی،ان کے پاس کیا اثاثے تھے ان کے کاروبار کی کیا حقیقت تھی ۔ تو پھر ان سے کہوں گاکہ یہ وزیر او رمشیر اور اس قسم کے سرکس کے لوگ اپنے والد صاحب کی کیا شہرت اور اثاثے تھے ،ان کے دادا کی کیا شہرت اور کیا اثاثے تھے ،ان کے سسر کی کیاشہرت اور اثاثے تھے ور وہ کہاں سے اثاثے لائے ہیں انہیں اس سوال کا جواب دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وزیر بتا دیں ان کا نیب سے کیا تعلق ہے ، نیب چیئر مین بتادیںجب یہ وزیر او رمشیر آکر کسی پر الزام لگاتے ہیں تو نیب کے چیئرمین پریس کانفرنس کر کے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کو کوئی اختیار نہیں ،کیا یہ لوگ نیب کا ریکارڈ یہ بناتے ہیں ، نیب کے فیصلے کرتے ہیں ۔ یہ تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ہم نیب کے فیصلے کرتے ہیں ، ہم عدالت میں جائیں گے، عدالت عمران خان جائیں گے وزیر جائیں گے حالانکہ جانا تو نیب کو ہے ۔ نیب عدالت کے اندر کہہ رہا ہے کہ شہباز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی ، کک بیک نہیں لی ،غیر قانونی پیسے سے اثاثے نہیں بنائے ۔انہوں نے کہا کہ آج یہ لوگ اس حد تک گر گئے ہیں کہ انتقام کی ہوس میں پاکستان کے عوام سے بھی جھوٹ بولنے کے لئے تیار ہیں ،کسی کی ہتک کرتے ہوئے ڈرتے نہیں ۔ آج جو یہ سوال کر رہے ہیں اسی سوال کا خود بھی جواب دینے کےلئے تیار ہوں ۔ ،میں وزیر اعظم رہا ہوں ، میں اور مسلم لیگ (ن) پانچ سالوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں، یہ جو سرکس کے وزیر ہیں یہی الزام لگا کر دیکھ لیںاور پھر میں بھی الزام لگاﺅں گا اورمیں الزام ثبوت کے ساتھ لگاﺅں گا،آپ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کے فیصلے لے آئیں میں آپ کو پیسے گن کر بتاﺅں گا کہ کتنے سینکڑوں ارب روپے کی کرپشن ایک ایک کابینہ کے فیصلے سے ہوئی ہے ۔ پھر کہا گیا کہ پارٹی کے فنڈ میں پیسے آئے تھے غلط استعمال ہو گئے ،یہ سول تو الیکشن کمیشن کر سکتا ہے، پارٹی فنڈ میں غلط استعمال ہوئے ہیں تو دینے والا سوال کر سکتا ہے ، بالکل اس کا جواب دیا جائے گا ، ہم فارن فنڈنگ کیس کو سات سے دس سال نہیں چلائیں گے،ہم جو بیان دئیے ہیں مکر نہیں جائیں گے ہم اس بات کوکسی او رپر نہیں ڈالیں گے۔ ٹی ٹی کی بات کی گئی لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شہباز شریف نے کوئی منی لانڈرنگ کی ہو ، منی لانڈرنگ ہو ، بے نامی ہو، ٹی ٹی ہو یہ صرف اس وقت معنی رکھتے ہیں جب آپ نے کسی جرم سے پیسہ حاصل کیا ہو او راس پیسے کو اثاثے بنانے کے لئے یا ملک سے باہر بھیجنے کے لئے یا کسی کو پیسے دینے کے لئے استعمال کیا ہو ،یہ پروسیڈ آف کرائم ہے ا ریہ دنیا کا قانون ہے جو انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں بھی ۔
یہاں پر نیب کہہ رہا ہے کہ شہا شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی ،کوئی کک بیک نہیں لیا ،غیر قانونی پیسے سے اثاثے نہیں بنائے تو پھر آپ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بنا سکتے ہیں، منی لانڈرنگ او ربے نامی کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں؟۔ یہ حقائق عوام کو بتانا بڑا ضروری ہے کیونکہ آج حکومت میں وہ لوگ ہیں جن کو سچ بولنے کی توفیق نہیں ہے اور یہ ملک کےلئے المیہ ہے ، جو آدمی حاکم ہوتا ہے جو آئین کے مطابق حکومت کرتا ہے اس پر اخلاقی قدریں لازمی ہوتی ہیں وہ قدریں آئین میں لکھی ہوئی ہے اس حلف میں لکھی ہوئی ہے جو وزیر اعظم او روزراءاٹھاتے ہیں ۔ میں پاکستان کے عوام سے کہتا ہوں اس حکومت کا ایک سچ بتا دیں جو پچھلے تین سال میں اس نے بولا ہو لیکن جھوٹ کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میںبھی مکمل نہیں ہو گی ، ہم فیصلہ عوام کے سامنے چھوڑتے ہیں،عدالت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ شہباز شریف پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے ، پھر اس پر سوال کرنا بنتا ہے کہ آپ اس ملک کی قومی اسمبلی کی قائد حزب اختلاف کو کس بنیاد پر نیب کے ریمانڈ میں رکھ سکتے ہیں او رجیلوں میں ڈال سکتے ہیں ،جب آپ خو دکو قانون سے بالا محسوس کریں کیا ملک او رپارلیمان ایسے چلے گا ؟ نیب کاچیئرمین سمجھے اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، وہ سیاسی انجینئرنگ کرےاورملک کی سیاست کو توڑے او رمروڑے، اس کے جواب کل انہیں دینے پڑیں گے یہ اس سے باہر نہیں نکل سکتے،نیب کا چیئرمین آئین و قانون سے باہر نہیںہو سکتا ، جو آج غیر قانونی کام کر رہے ہیں وہ کل پہلی فلائٹ سے باہر نہیں جائیں گے ان کو یہاں پر جواب دینا ہوگا ان کو عوام کو بتانا ہوگا کہ جو انہوںنے انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا ہے جو قوانین توڑے ہیں جو آئین کوانہوں نے کاغذ کا ٹکڑا سمجھا یہ حضرات کل جوابدیں ہوں گے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چیئرمین نیب جو جھوٹے پرچے بنارہے ہیں انہیں اس کا جواب دینا پڑے گا، اگر وہ حکومتی لوگوں کی کرپشن پر کارروائی نہیں کر رہے اوراس کرپشن چھپا رہے ہیں تو انہیںجواب دینا پڑے گا،چینی پر عوام دو سال میںپانچ سو ارب روپے ادا کر چکے ہیں کیا چیئرمین نیب کو نظر نہیں آتا ، انہیں یہ تو نظر آ جاتا ہے کہ میں نے پی ایس او کا ایم ڈی لگایا تھا لیکن پانچ سو ارب کی کرپشن نظر نہیں آتی ۔ چینی کے معاملے پر کمیشن بن چکا ہے کہ خرابی ہوئی ہے ، یہاں پر تین سال پہلے چینی 53روپے کلو بک رہی تھی اور آج 115روپے میں بک رہی ہے چیئرمین نیب کو کیوںنظر نہیں آتا ، کابینہ کی میز پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے سینکڑوں ارب روپے بنائے ہیںان کے خلاف چیئرمین نیب کارروائی نہیں کرے گا تو کل ان کے خلاف کارروائی ہو گی ۔مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے اتفاق رائے سے فیصلہ ریکارڈک اہے کہ نیب اعتراف کرنے پر مجبور ہوئی کہ شہباز شریف کے خلاف نہ کمیشن نہ کک بیک نہ اختیارات کے ناجائز استعمال ،کسی کو ناجائز فائدہ دینے کا الزام نہ منی لانڈرنگ او رنہ ٹی ٹی سے کوئی کرائم پروسیڈ سے بینی فشری ہونے کا ثبوت پیش کر سکی ہے ۔میں سوال کرنا چاہتاہوں کہ تین سالوں سے کردار کشی کر رہے ہیں لیکن نواز شریف ،شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے تمام سابقہ وزراءکی ایک ایک کرکے حقیقت قوم کے سامنے آ چکی ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس حکومت کے نیب کے ریفرنس صرف الف لیلیٰ کی داستان کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتے ۔یہ صرف جھوٹ ،بہتان اور الزامات پر مبنی ہیںچونکہ عمران نیازی خوفزدہ ہے کہ وہ (ن) لیگ کی کامیابیوں اورکارکردگی کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ جو کارکردگی شہباز شریف نے دکھائی اور جس کا مظاہرہ کیا اس کا ملک کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی سب لوگ اعتراف کرتے ہیںاو رپھرانہیں پنجاب کے اندر مثالی ترقی د ینے کی سزا یہ دی گی بکتر بند گاڑی میں عدالت لے جایا گیا ،آئی بی کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں کہ شہباز کیا کھاتے ہیں کون کون ملنے آتاہے ،عمران خان بیمار ذہنیت رکھتا ہے اور کردار کشی سے ذہنی تسکین حاصل کرتاہے ، پاکستان میں بادشاہت نہیں آئین و قانون کی حکمرانی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر اور فواد چوہدری نے جس طرح لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر بات کی ہے وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتاہے ،میں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے سوال کیسے یہ کہہ سکتے ہیں میں نے کسی کو سفارش پر وائس چانسلر لگایا ہے پہلے مجھ سے جواب مانگتے اس کے بعد رائے کا اظہار کرتے ۔اتنی بات کرنے پر میں نے توہین عدالت کا مقدمہ کئی مہینے لاہو رہائیکورٹ میں بھگتا ۔میں ادب کے ساتھ امید رکھتا ہوں کہ وہی وکیل جنہوں نے مجھ پر توہین عدالت کے لئے مقدمہ قائم کیا تھا ،اب شہزاد اکبر اور فواد چوہدری کے ان جارحانہ تبصروں پر توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرینگے جس میں شہزاد اکبر لاہو رہائیکورٹ کے تین ججو ں کو بتا رہے ہیں کہ آپ کی ڈیوٹی کیا ہے آپ کے ختیارات کیا ہیں اور آپ کس قسم کا فیصلہ لکھ سکتے ہیں اور نہیں لکھ سکتے ۔ گویا کہ شہزاد اکبر نے لاہو رہائیکورٹ کو ایف آئی اے کا ذیلی ادارہ سمجھ لیا ہے جو ان کی ڈکٹیشن لے کر فیصلے جاری کرے گا،فیصلہ جاری کرنے سے پہلے شہزدا اکبر یا فواد چوہدری سے این او سی حاصل کرے گا ، یہ توہین عدالت ہے ، عدلیہ پر حملہ ہے ، آپ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے کہ وہ کیا فیصلے کرے گی او رکیا فیصلہ نہیں کر ے گی ۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے ، سپریم کورٹ نے اقامہ کیس میں وزیراعظم عمران خان کو نا اہل قرار دیا توہم نے فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے عملدرآمد کر کے دکھائے حالانکہ کہ ہمارے تحفظات تھے لیکن ہم نے عمل کیا ،نوا زشریف کو پارٹی صدارت سے الگ کرنے کےلئے حکم دیا گیا تو ہم نے اس پر بھی تحفظات رکھتے عمل کیا ، سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے شیر کا نشان چھین لی گیا اس فیصلے پر بہت تحفظات تھے لیکن ہم نے پھربھی اس فیصلے پر عملدرآمد کیا ۔
سوال کرنا چاہتا ہوں کہ شہزاد اکبر اور فواد چوہدری کس بنیاد کے اوپر ہائیکورت کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں ،لاہور ہائیکورت کے فیصلے پر سوالات کر رہے ہیں کیا وہ ہائیکورٹ کو ایف آئی اے کا ذیلی دفتر سمجھتے ہیں جو ان کی ڈکٹیشن پر چلے گا ،کیا لاہور ہائیکورت کے فاضل ججوں کو پتہ نہیں انہوں نے فیصلہ لکھنے کےلئے کس قانون کا سہارا لینا ہے ان کے ضمانت کی فیصلے کی کیا حدود و قیود ہیں کیا وہ اس سے بے خبر ہیں اور فواد چوہدی اور شہزاد اکبر زیاد ہ با خبر ہیں ۔ یہ لاہور ہائیکورٹ اور عدلیہ پر بد ترین حملہ ہے جو حکومت نے کیا ہے ،امید کرتا ہوں توہین عدالت کا نوٹس لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تو حکومت نے نہ صرف ان کو روکا بلکہ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کا تمسخر بھی اڑایا ، جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو ایف آئی اے کا نمائندہ کمرہ عدالت میں موجود تھا لہٰذا یف آئی اے آئی پابند تھی اس فیصلے پر عمل کرتی لیکن جان بوجھ کر حکومت کی ایماءپر ہائیکورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شہباز شریف کو روکا گیا اور اس پر بر ملا حکومت کے وزراءنے کہا کہ ہم نہیں جانے دیں گے ،ہم پاکستان کو بادشاہت بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جتنے کیسز مسلم لیگ (ن )کے ممبران پر بنائے گئے ،شاہد خاقان عباسی پر جو کیس بنایا گیا وہ ردی کا مجموعہ ثابت ہوا جو مفتاح اسماعیل پر بنا ردی کی ٹوکری میں گیا ،خواجہ سعد رفیق کے کیس میں سپریم کورٹ نے نیب کے بارے میں فیصلہ لکھا اس کے بعد نیب کے اہلکاروں کا فرض تھا کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر جاتے ، رانا ثنا اللہ کے خلاف جو کیس بنایا گیا وہ دنیا میںلطیفہ بن گیا او رانٹر نیشنل پارلیمانی یونین بھی نوٹس لینے پر مجبو ہو گئی، جو کیس حنیف عباسی پر بنایا گیا وہ بد ترن بد دیانتی او ر اختیارات کا ناجائز استعمال تھا،جو کیس مجھ پر بنایا گیا وہ بھی ایک لطیفہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج تک جتنے کیسز بن چکے ہیں وہ ایک ایک کر کے عدالت سے بوگس ثابت ہو رہے ہیں ،یہ حکومت کارکردگی دکھا سکی ہے او رنہ عوام کو ریلیف دے سکتی ہے نہ ملک کی ترقی بر قرا رکھ سکتی ہے اور اب ریہ صرف کردار کشی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران صاحب کہتے ہیں طاقتور لوگوں کو پکڑنا ہے ،ہم تو بغیر کسی ثبوت اور الزام کے موت کی کال کوٹھڑیوں سے ہو آئے ہیں۔ طاقتوروہ ہیں جو عمرنا خان کی ایماءپر عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالتے ہیں،ادویات ،ا یل این جی ، چینی ،آتا کی چوری میں قوم کے کئی سو اربوں روپے لوٹے گئے لیکن کوئی پوچھنا والا نہیں کیونکہ یہ سب عمران خان کی چھتری کے نیچے ہیں، یہ مافیاز طاقتور ہے کیونکہ عمران خان کی اے ٹی ایمز ہیں ،عمران خان کے خرچے اٹھاتے ہیں ،غربوں کو لوٹتے ہیںاوآرام سے کھلے پھرتے ہیں اور کوئی انہیںپوچھنا والا نہیں ، آج پاکستان کی عوام کو پتہ لگ گیا ہے عمران خان او ران کے وزیرجھوٹ کے پلندے سناتے ہیںاوران کی حیثیت ردی کے پلندوں سے زیاد ہ نہیں ۔احسن اقبال نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان نے ملازمین کے اکاﺅنٹس میں پیسہ منگوایا جب اصلیت سامنے آئے گی تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگا ئیں گے ۔
رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ شہباز شر یف نے امانت او ردیانت کے ساتھ دس سال پنجاب کی خدمت کی ہے ،انہوںنے تین ہزار ایک سو پچاس ارب روپے کے میگا پراجیکٹس کی تکمیل کی ہے ڈھائی ،تین سال کی گھٹیا انتقامی کوشش کے باوجود نیب ایک روپے کی کرپشن کک بیک کمیشن کا الزام نہیں لگا سکا۔ شریف فیملی گزشتہ اسی سال سے ایک کاروباری اور لیڈنگ بزنس فیملی ہے ،یہ فیملی1970ءمیںجو بنیادی انڈسٹریل یونٹس تھے ان کے مالک تھے ،انہوں نے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا ہے اور اس طر ح قوم کی خدمت میں کردا رد اکیا ہے ،ان کی اس خدمت کو ،کاروباری معاملات کو اور ٹرانزیکشن کو گھما کر الٹا کر کبھی منی لانڈرنگ کبھی کرپشن کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ،لیکن عدالتی فیصلوں کے سامنے احتساب کا ڈرامہ جو وینٹی لیٹر پر جا چکا ہے جلد دم توڑنے والا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر اور فواد چوہدری کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنا پورا زو رلگا لیں شہباز شریف اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے انشا اللہ جائیں گے اور پھر واپس آ کر اپنا قومی کردار ادا کرں گے،ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ میاں صاحبان جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے سامنے جھکنے والے انسان ہیں ان کو ماضی میں بھی جانے سے اور پھر واپس آنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ان کو جانے سے اور آنے سے روکنے والے آج جس انجام اور حالت میں موجود ہیں ان سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ شریف برادران نے جب چاہا ہے گئے اور واپس آئے ہیں لیکن جانے اورنہ آنے سے کوئی روک نہیں سکا بلکہ ایسا کرنے والے عبرت کا نشان ہیں ۔ پاکستان ودوبارہ مسلم لیگ (ن) اور نوا زشریف کی قیاد ت آگے بڑھے گا اور عوام کی خدمت کا سفر جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے شروع کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے ملک کا نقصان کیا ہے معیشت کو تباہ کیا ہے سیاسی اقدار کو تباہ کیا ہے یہ اپنے انجام کو پہنچیں گے او رجوابدہ ٹھہریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر حکومت یا کسی ادارے کی نمائندگی کرنے والا وکیل عدالت میں موجود ہو تو عدالت کا فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے ، عدالت نے شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت سے متعلق مختصر طو رپر سنایا بلکہ عدالت نے پورا فیصلہ پڑھ کر سنایا اس وقت وہاں سرکاری وکیل ،نیب ، ایف آئی اے کے افسران موجو دتھے ایسے میں کسی کو نئے سرے سے الگ سے آگاہ کرنے کی ضرور ت نہیں تھی ، یہ صریحاًتوہین عدالت ہے اس کے نوٹس کے لئے تحرک کریں گے اورہو سکتا ہے عدالت بھی اس پر سو موٹو نوٹس لے اور توہین عدالت کی کارروائی چلے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو شہبازشریف کو روکا ہے اس پر توہین عدالت کا نوٹس بھجوائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور آرمی چیف جوسعودی عرب گئے تو مجھے یقین ہے کہ ملک کی بات کرنے گئے ہوں گے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہم ایف آئی اے گئے تو ہمارے ہاتھوں میں کون سی توپ اورڈنڈے تھے ،ویٹنگ روم میں کاغذات لئے گئے ، جو نا معلوم افراد نامزد کئے گئے ہیں وہ اراکین قومی اسمبلی تھے ،دراصل پریس کانفرنس کے جواب میں ان کے پاس کوئی جواب نہیں ، چیلنج کرتی ہوں مقدمہ درج کرائیں ہمیں ڈرنے والے نہیں، ، اگر ایف آئی کے دفتر پر حملہ ہوا ہے تو اس کے ثبوت دیں ہم جواب دیں گے، حکومت نے جو کرنا ہے کر لے ہم مقابلہ کرلیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی ایکسپو سنٹر میں سندھ کا سب سے بڑا ماس ویکسی نیشن سینٹر قائم