(24نیوز) سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی،سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس میں اسپیشل جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کر دی۔
تفصیلات کے مطابق بینچ میں چیف جسٹس کے ہمراہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں، جے آئی ٹی کے ارکان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایم ایل اے کو جواب تاحال نہیں آیا، جے آئی ٹی دوبارہ متحدہ عرب امارات جانے کی تیاری کررہی ہے،ہمیں ایسی رپورٹس نہیں چاہیں جن میں کچھ پیشرفت ہے ہی نہیں، 2 افسروں نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی جس میں بہت سے بیانات اور شواہد تھے،اسپیشل جے آئی ٹی نے کوئی پیشرفت نہیں کی،پچھلے ہفتے کیس سماعت کیلئے مقرر ہوا تو جے آئی ٹی کل کینین ہائی کمیشن سے ملی،پچھلی سماعت سے اب تک کوئی پیشرفت کیوں نہیں کی گئی؟ سپریم کورٹ ارشد شریف قتل کی ایماندار اور شفاف تحقیقات چاہتی ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کا مقصد بتا دیں ابھی تک کوئی میٹریل نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ارشد شریف قتل تحقیقات سلسلے میں دو پیشرفت ہوئی ہے، متحدہ عرب امارات کا 11 اپریل کو ایم ایل اے آیا، یو اے ای کو 27 اپریل کو ایم ایل اے سوالات کا جواب دیدیا، کینین حکومت نے بھی تحقیقات کے سلسلے میں ابتک انکار نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان حساس اداروں پر الزمات لگا کر کارکنوں کو اکسا رہے ہیں: شیری رحمٰن
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کو انکوائری کرتے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دسمبر 2022 میں معاملہ پر از خود نوٹس لیا تھا، جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے قتل سے متعلق ابتک کیا مواد اکٹھا کیا، جے آئی ٹی ٹیم دبئی سے آرہی ہے کینیا جارہی ہے، اس کے علاوہ ابتک کی کیا پیشرفت ہے۔ پیشرفت رپورٹ میں خرم ، وقار کو ملزم لکھا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وقار کے انٹرو پول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی ایجنسی ایف آئی اے ہے۔