اُس رات ہمارے گھر کے صحن میں 5 جنازے پڑے تھے!
تحریر: محمد احمد پیرزادہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
بالاکوٹ، 8 اکتوبر 2005ء کا قیامت خیز دن ذہن میں موجود یہ یاداشت بالکل ایسے زخم کی طرح ہے جس میں سے ہر وقت خون رستا ہے ، کوئی تصویر یا تاریخ کسی بھی صورت میں یہ یاداشت ذہن میں ہتھوڑے چلانے لگتی ہے ، تکلیف ایسی ہے کہ چیخنے پر بھی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی بلکہ اپنی ہی قوت سماعت کو چیڑنا شروع کر دے ، جسمانی حالت ایسی ہے کہ جیسے غشی کے دورے پڑ رہے ہیں لیکن طبیب علاج سے قاصر ہے ۔
میں محمد احمد پیرزادہ آپ کو اپنی آپ بیتی سنا رہا ہوں ، یہ آپ بیتی ایک نرسری کلاس کے چھوٹے سے معصوم محمد احمد پیرزادہ کی ہے ، جس نے 8 اکتوبر 2005 کو خود قیامت کا نظارہ اپنی ننھی آنکھوں کیا ، میری معمول کی کلاس کا دوسرا پیریڈ تھا ، وقت 8 بج کر 52 منٹ۔۔۔۔
اچانک ایک شور مچا، سب کو نیچے دلان میں جانے کو کہا گیا، ہماری میم شمائلہ کرسی میں پاؤں پھنسائے بچوں کو باہر نکال رہی تھیں، پنکھے خود بخود جھولنے لگے، دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی تھیں، مجھے چکر سے آنے لگے، تمام احباب سکول کے میدان میں جمع ہوئے، لوگ سہمے ہوئے انداز میں تسبیحات پڑھنے لگے، عجب نفسا نفسی کا عالم تھا، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے، زمین کے ساکن ہونے پر ہمیں گھر بھیج دیا گیا ۔
گھر پہنچ کر اندازہ ہوا کہ قیامت ابھی ٹلی نہیں بلکہ ابھی گزرنے کو ہے ، میرا بڑا بھائی جو اس دن میرے ساتھ سکول نہیں گیا تھا سامنے بے جان سفید چادر میں لپٹا پڑ اتھا ، ہمارا مکان زمین بوس ہو کر میرے ننھے قدموں کے نیچے ایسے ریزہ ریزہ بکھرا پڑا تھا جیسے وہ میرے پاؤں کیساتھ لپٹ کر اپنے کیے کی معافی مانگ رہا ہو، ہمارے گاؤں کے تمام مکانوں کی صورتحال اس سے مختلف نہ تھی،ہمارا نیا مکان جو جدید تعمیراتی مٹیریل سے پایہ تکمیل کی جانب گامزن تھا پورے گاؤں کا صرف وہی مسکن تھا ،سارے گاؤں میں وہی ٹھہرنے کے قابل ایک جگہ بچی تھی، چنانچہ تمام لوگ ادھر ہی رہے، رات کو تیز ہوا، بارش اور آندھی چل رہی تھی۔
ہنستے بستے خاندان اجڑ چکے تھے، اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کو مفلسی نے گھیر لیا تھا،اُس رات ہمارے گھر کے صحن میں 5 جنازے پڑے تھے، شہید ہونے والوں میں ایک ہمارا بھائی جبکہ باقی 4 پڑوسی تھے جو مکانوں تلے آ گئے تھے، بچپن کے کچھ مناظر ذہن میں پیوست ہو جاتے ہیں، آج 19 برس گزر چکے ہیں اور سارا واقعہ ایک دردناک یاد کے طور پر نظروں کے سامنے ہے، خدا وہ منظر پھر نہ دکھائے،اس دلخراش سانحہ میں مجموعی طور پر 70ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، مالک کریم شہدا کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
نوٹ: تحریر ایک سچے واقعہ پر مبنی ہے جس کا مقصدکسی بھی صورت کسی کو رنج پہنچانا نہیں ہے