(24 نیوز)5اگست 2019 کو مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ۔کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پیچھے حکمران جماعت بی جے پی کا مقبوضہ کمشیر میں ہندوؤں کی آباد کاری کا مقصد کار فرما تھا، آرٹیکل 370 کی منسوخی سے معیشت اور روزگار منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اب حالات یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت غربت 49 فیصد کی خطرناک حد کو چھو رہی ہے، مقبوضہ کشمیر کی عوام غربت کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔بڑھتی ہوئی بےروزگاری کی وجہ سے مودی سرکار کیخلاف ایک عرصے سے مقبوضہ وادی کے عوام سخت احتجاج کر رہے ہیں ،اور اب اِسی احتجاج کا نتیجہ ہے کہ مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں منہ کی کھانا پڑی ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبری الیکشن میں مودی سرکار ہر قسم کے ہتھکنڈوں اور سرکاری مشینری استعمال کرنے کے باوجود عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملیں جسے ووٹرز کی مودی سرکار کے خلاف بیلیٹ احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعت کانگریس کا انتخابی اتحاد 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستیں حاصل کرپائی جو حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہوجائے گی۔اب مودی سرکار نے کالے قانون کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جبکہ مقبوضہ کمشیر کی عوام نے اپنے رد عمل سے مقبوضہ وادی میں بی جے پی کی سیاسی حیثیت ختم کردی ہے ۔جس سے یہ واضح ہوگیا ہے مقبوضہ کشمیر کی عوام مودی سرکار سے کس قدر نفرت کرتے ہیں۔