ایک بھی شخص لاپتہ ہوتا ہے تو چیف ایگزیکٹو براہ راست ذمہ دار ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تکالیف کا ازالہ کرے، ایک بھی شخص لاپتہ ہوتا ہے تو چیف ایگزیکٹو براہ راست ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ وزیر اعظم روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس وقت سیلابی صورتحال میں کام کر رہے ہیں، عدالت سراہتی ہے کہ آپ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب مسنگ پرسنز ایک بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کا وہ ردعمل نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمہ داری ہے، بہت پیچیدہ صورتحال ہے، بدقسمتی سے ایک 9 سال چیف ایگزیکٹو رہنے والے نے فخریہ لکھا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ریاست کا ایک آئین ہے، اس ملک میں آئین کے مطابق سول سپرمیسی ہونی چاہیے، اس عدالت نے یہ معاملہ کئی بار کابینہ کو بھیجا لیکن کچھ نہیں ہوا، آپ کو معاملہ بھیجا تو آپ نے اس پر اچھا اقدام اٹھایا ایک کمیٹی بنائی، یہ عدالت سمجھتی ہے کہ کمیٹیاں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کو اس عدالت نہ آنا پڑتا، بلوچ طلبہ کے جو مسائل عدالت کے سامنے آ رہے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں، نیشنل سیکیورٹی کے تمام معاملات سولین چیف ایگزیکٹو کی طرف سے دیکھے جانے چاہئیں، فورسز کی جانب سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا تاثر بھی ملک کیلئے نقصان دہ ہے، یہ آئینی عدالت ہے ریاست آ کر کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتہ شہری کہاں ہے، پھر اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ کو کہنا پڑیگا کہ اس ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں، اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی، پھر بھی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے، گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تبھی ختم ہونگے جب آئین بحال ہوگا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے لیکن کوئی حل بتا دیں، جب وہ چھوٹا بچہ اس عدالت آتا ہے تو یہ عدالت اس کو کیا کہے؟ پہلے بھی اس عدالت نے اِس بچے کو وزیراعظم کے پاس بھیجا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے، میری بہت اہم مصروفیات تھیں لیکن اس عدالت کے حکم سے زیادہ اہم نہیں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور اعظم نذیر تارڑ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ وزیراعظم کی آمد پر صحافیوں نے پولیس کے ناروا رویے سے متعلق شکایت کی، جس پر وزیراعظم نے کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ کمرہ عدالت میں وزیراعظم شہباز شریف سے مدثر نارو کے بیٹے نے اپنی دادی کے ساتھ ملاقات کی۔
وزیراعظم کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل عدالت کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ پولیس اور اسپیشل برانچ کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔ پولیس کی جانب سے عدالت کے آنے جانے والے راستوں پر خاردار تاریں بچھا دی گئی تھیں جب کہ غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع تھا۔ہائی کورٹ میں صرف رجسٹرار کی طرف سے جاری فہرست کے مطابق ہی افراد کو داخلے کی اجازت دی گئی۔
پیشی سے قبل لاپتا افراد کے لواحقین عدالت پہنچ گئے تھے، جن میں لاپتا صحافی مدثر نارو کا بیٹا اور آمنہ مسعود جنجوعہ بھی شامل تھیں۔ علاوہ ازیں آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان بھی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جولائی میں لاپتا افراد کیس میں حکم جاری کیا تھا کہ لاپتا افراد 9 ستمبر تک بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم خود پیش ہوں۔ جس کے بعد وزیراعظم نے گزشتہ روز ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔اہم کیس کی وجہ سےآج اسلام آباد ہائی کورٹ میں کسی دوسرے کیس کی سماعت مقرر نہیں کی گئی تھی۔