پارلیمنت کا مشترکہ اجلاس: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کرا لیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تاڑڑ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان میں پیش کیا۔
پی ٹی آئی والے اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے، جہاں تحریک انصاف ارکان نے قرارداد کے خلاف ایوان میں احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے، پی ٹی آئی ارکان ایوان میں شور شرابہ اور مسلسل ڈیسک بجاتے رہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظوری کیلئے صدر کو بھیجا تھا، صدر نے ایک پیغام کے ساتھ بل واپس بھیجا ہے، ہم نے سپریم کورٹ کے اختیار میں اضافہ کیا، سپریم کورٹ کے معاملات میں شفافیت لائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز آمر کے دور میں بنائے گئے تھے، ون مین شو کا اثر زائل کرنے کیلئے یہ قانون بنایا گیا، صدر مملکت نے کہا یہ قانون سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت ہے، ہم نے اختیار سپریم کورٹ کے ججز کو ہی دیا ہے، اس قانون کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ یہ قانون پہلے آنا چاہیے تھا۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ1980 میں سپریم کورٹ کے رولز بنائے گئے، اس وقت ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا، تمام اختیارات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دیے گئے، بنچز تشکیل دینے کا اختیار بھی چیف جسٹس کو دیا گیا، اس حوالے سے بار کونسلز نے وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی، بدقسمتی سے صدر نے اس بل کو منظور نہیں کیا، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔
خواجہ اظہار الحسن
ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں انتخابات یکساں ہونے چاہیے، آئین کہتا ہے آئین شفاف ہونے چاہیے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں انتخابات ہوں، یہ بلکل ٹھیک ہے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہیے، آج جو بات ہورہی ہے ججز کی آبزرویشن کی وجہ سے ہے، تین ججوں کے فیصلے سے یہ بات ہوئی، عدلیہ انصاف کی سب سے بڑی عدالت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی عدالتوں کی معاونت نہیں کی، نسلہ ٹاور کو بم سے اڑانے کا فیصلہ بھی آیا تھا، اس وقت پی ٹی آئی کہاں تھی، بنی گالا کو ریگولرائز کر دیا جاتا ہے، لیکن نسلی ٹاور کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے، یہ قرارداد ججز کے خلاف نہیں ہے، سپریم کورٹ کی غیر جانبداری کے لیے ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 224 کی منشاء ہے کہ انتخابات نگران حکومت کی موجودگی میں انتخابات ہوں، پنجاب کے الیکشنز پہلے ہونے سے دوسرے صوبے متاثر ہوتے ہیں، اگر پنجاب میں تین مہینے پہلے انتخابات ہوئے تو اس حکومت کا اثرورسوخ کیسے ختم کرینگے، ہم نے یہ بات عدلیہ کے سامنے بھی رکھی، یہ جو عدلیہ بچانے کی بات کر رہے ہیں ان کا مقصد عدلیہ بچانا نہیں ہے، عدلیہ کیلئے کو بچانے کا وقت آگیا تو سب سے پہلے میں کھڑا ہوں گا۔
نور عالم خان
نور عالم خان نے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر پنجاب کے انتخابات پہلے ہونگے تو دوسرے صوبوں پر اثرات پڑینگے، الیکشن سے کوئی نہیں ڈرتا، ہم الیکشن لڑ کر دوبارہ آئیں گے اور یہ باہر بیٹھیں گے، اسمبلی میں بیٹھی پارٹیوں کے لیڈرز شہید ہوئے، جو لوگ اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار ہیں، فاٹا کے لوگوں کو اپنی سیٹیں پوری نہیں ملیں پہلے مردم شماری کرواؤ۔
مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 15 مئی تک ملتوی کر دیا گیا۔