عمران خان کی سائفر پر سازش کا بیانیہ انٹرسیپٹ کی سٹوری نے بے نقاب کر دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) عمران خان کی سائفر پر سازش کا بیانیہ انٹرسیپٹ کی سٹوری نے بے نقاب کر دیا۔
انٹرسیپٹ (Intercept) نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا ہے کے اُنکے پاس سائفر کی کاپی نہیں ہے اور کسی سورس نے بھی اِس کو کنفرم نہیں کیا - یہ بات یہ ثابت کرتی ہے کے یہ ایک مکمل طور پر جھوٹی اور من گھڑت سٹوری ہے، دوسری بات یہ ہے کے اگر فرض کریں اسے مان بھی لیا جائے کے یہ عمران خان کے گھمے ہُوئے سائفر کی کاپی ہے جو امریکیو کو بیوقوفی سے عارضی فائدہ حاصل کرنے کے لئے دے دی گئی ہے تو یہ تحریک انصاف اور عمران خان کی سب سے بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ کے اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کے یہ کوئی امریکی سازش نہیں تھی بلکہ سخت سفارتی زبان کا استعمال تھا جو بار ہا دفعہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری، ایوان صدر سے اہم خبر آ گئی
اِس پوری سٹوری میں ایک بھی بات نئی نہیں ہے وہی عمران خان کا گِسّا پٹا بیانہ ہے جو وہ پچھلے ایک سال سے پیٹ رہا ہے ، اخبار کا اپنا دعویٰ ہے کہ جو دستاویز ان کے ہاتھ لگا ہے اس کی تصدیق کرنے کے لیے انہوں نے کوششیں کی ہیں مگر وہ اس مراسلے کی تصدیق نہیں کر سکے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ اخبار کو خود بھی اس مراسلے کی تصدیق کا علم ہی نہیں ہے۔ یعنی یہ مراسلہ جو اخبار دعوی کرررہا وہ ایک جعلی مراسلہ ہے۔
مراسلے کی تصدیق کے لیے اخبار ایک دوسری پاکستان سے تعلق رکھنے والی اخبار ڈان کا سہارا کے رہا ہے کہ ہمارے پاس جو مراسلہ ہے وہ ڈان کی رپورٹنگ سے میل جول رکھتا ہے۔ تو پھر تو شاید یہ مراسلہ ہی ڈان کی کسی رپورٹ کو دیکھ کر ہی بنایا گیا ہے۔
اخبار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس مراسلے میں لکھا ہے کہ مراسلے میں ڈانلڈ لو سے منسوب ریمارکس میں لکھا ہے “اگر عمران خان کے خلاف نو کانفیڈنس کامیاب ہو گئی تو میرا یہ خیال ہے” یعنی اخبار خود یہ دعوی کررہا ہے کہ یہ ڈانلڈ لو کا خیال تھا نہ کہ امریکی دھمکی۔ یہی تو نیشنل سیکیورٹی کے اعلامیے اور پریس کانفرینسوں میں بھی کہا گیا کہ کوئی دھمکی نہیں ملی اور نہ کوئی سازش ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا دوران ملازمت وفات پانے والے ملازمین کے بچوں کی نوکریوں سے متعلق بڑا فیصلہ
اور سب سے اہم سوال یہ ہے کے اگر اِس کو سائفر یا سائفر کی معلومات مانا جائے تو عمران خان بار بار مان چکاہے کہ سائفر کی کاپی جو اُس کے پاس تھی یا اُسکی معلومات کا اسکو کو کچھ پتہ نہیں۔ اب پتہ لگ رہا ہے کہ وہ سائفر کی کاپی یا اُسکی معلومات کہاں پر ہیں؟ اِس پر حکومت کی طرف سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے مطابق سخت سے سخت قانونی کاروائی ہونی چاہئے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کے وقار اور قومی ساکھ کو اِس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔
اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سفارتی تعلقات سے جڑی ہوئی معلومات کو افشاں کرنا ملکی قانون کی سخت ترین خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی ساکھ اور سفارتی اعتماد کا قتل ہے، افواج اور پاکستان مخالف عمران خان کے جانے پہچانے حیمایتی سے اس آرٹیکل کو لکھوانا بھی نت نئے سوال کو جنم دیتا ہے۔