9 مئی معاف نہیں؟پی ٹی آئی کا خاتمہ؟پارلیمنٹ میں مداخلت،پیپلز پارٹی نے خبر دار کردیا

Aug 10, 2024 | 09:41:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومتی اتحادیوں میں اِس وقت یہ سوچ چل رہی ہے کہ اگر وہ کمزور ہوگئے تو اِس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔پہلے بجٹ کا معاملہ ہو یا پھر تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا معاملہ ہو پیپلزپارٹی یہ شکوہ کرتی نظر آئی کہ حکومت نے اِس کو اعتماد میں نہیں لیا جس کے بعد یہ تاثر اُبھرنے لگا کہ جیسے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا عنقریب اتحاد ہوجائے گا ۔لیکن واقفان حال کے مطابق تحریک انصاف کی اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست نے پیپلزپارٹی کو پھر سے اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کیا۔اور ظاہر ہے پاک فوج کا نو مئی سے متعلق مؤقف بالکل واضح ہے ۔نو مئی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت میں میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔کل آرمی چیف نے سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کی نشاندہی بھی کی۔اور ظاہر ہے اداروں کی پی ٹی آئی کے سیاسی رویے پر تشویش کی وجہ سے پیپلزپارٹی تو کوئی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گی جس سے اِس کو سیاسی نقصان پہنچے ۔اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے مستقبل میں نو مئی کے حوالے سے صوتحال مختلف ہوجائے ۔
پروگرام ’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب اگر مستقبل میں سانحہ نو مئی پر ذمہ داروں کیخلاف کوئی ایکشن ہوتا ہے جس کا عندیہ خواجہ آصف دے رہے ہیں تو پھر پیپلزپارٹی یہ رسک نہیں لے سکتی کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرے اور اُس کی سیاست کو نقصان پہنچے۔اور پی ٹی آئی تو پھر سے نو مئی پر سخت مؤقف اپنانا شروع ہوچکی ہے ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پھر سے ن لیگ کے ساتھ ایک صفحے پر نظر آرہی ہیں ۔ایسا لگ رہا ہے کہ اب حکومت اور اتحادیوں نے اکھٹے ہوکر پی ٹی آئی کیخلاف صف بندی کرلی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے نہ صرف ن لیگ کو الیکشن ترمیمی بل پر سپورٹ کیا بلکہ اب پیپلزپارٹی تحریک انصاف پر تیراندازی کرنا بھی شروع ہوگئی ہے۔آج بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دھواں دار تقریر کی ۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا جب تک یہ ملک آئین ،قانون اور جمہوری انداز نہیں اپناتا ہم اُس وقت تک عوام کی اُمیدوں کے مطابق چیزوں کو فنکشن نہیں کرسکتے۔
اب بلاول بھٹو نے ایک ادارے کا بھی ذکر کیا اور کہا ہے کہ ایک ادارہ پارلیمنٹ میں بار بار مداخلت کر رہا ہے اب مفاہمت پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے طرز سیاست رہا ہے ۔لیکن آج بلاول بھٹو کی جانب سے عدلیہ پر ایسی ہی تنقید کی گئی ۔اب جیسا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ بل پر اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا عدلیہ الیکشن ترمیمی بل پر اثر انداز ہوسکتی ہے یا نہیں؟اور ایسے وقت میں بلاول بھٹو نے یہ بیان دیا ہے کہ ایک ادارہ پارلیمنٹ میں بار بار مداخلت کر رہا ہے ۔بلاول بھٹوکی باتوں سے یہ جھلک رہا ہے کہ ایک خاص جماعت کیلئے سہولت کاری ہورہی ہے۔جبکہ تحریک انصاف بھی یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کو اگلا چیف جسٹس نامزد کیا جائے ۔اور اِس مطالبے کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ شاید تحریک انصاف کو یہ خدشہ ہے کہ حکومت موجودہ چیف جسٹس کو ایکسٹینشن دینا چاہتی ہے۔بہرحال اب بلاول بھٹو مخصوص نشستوں کے فیصلے پر بھی سوال اُٹھارہے ہیں کہ ایک فیصلے کی وجہ سے ایک جماعت جس کی انتخابی مہم مؤثر نہیں تھی وہ متحرک ہوگئی ۔
اب جیسا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کو ن لیگ کے ساتھ پیپلزپارٹی نے بھی چیلنج کر رکھا ہے۔اور الیکشن ترمیمی ایکٹ بل پر بھی وہ حکومت کے ساتھ ہے جو اِس بات کا پتہ دیتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے ۔اب ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کو ن لیگ سے اختلافات ہوں لیکن وہ مجبوری میں حکومت کے ساتھ چل رہی ہو۔کیونکہ فی الحال تو پیپلزپارٹی کو سوٹ بھی یہی کرتا ہے کیونکہ تحریک انصاف جس طرح کی سیاست کر رہی ہے اُس کو پیپلزپارٹی کسی صورت ایفورڈ نہیں کرسکتی ۔ بہرحال اب بلاول بھٹو کے بیان پر عمر ایوب نے رد عمل دیا ہے۔
اب بات پھر سے بات تصادم کی طرف جارہی ہے ۔سیاسی حالات پہلے ہی ناساز ہیں ایسے میں ضرورت تو اِس بات کی ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالے اور یہی بات مولانا فضل الرحمان بھی کر رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ایکٹ بل پر تحفظات تو ہیں اور یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ بل کسی بدنیتی پر مبنی تھا ۔
اب مولانا فضل الرحمان کی باتوں سے تو یہی تاثر جارہا ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ بل پر تحریک انصاف کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں ۔جبکہ اِس معاملے پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک طرف کھڑی ہیں ۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں