اقلیتوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمد ہوگا،جسٹس منصور علی شاہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا غیر آئینی ہوگا،کسی کے پاس یہ آپشن نہیں کہ کہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا،سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا آئین کا تقاضا ہے،پاکستان کے موجودہ نظام میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا لازم ہے،اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا تو پھر کوئی اور نظام لے آئیں،اپنے اختیارات کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد کراؤں گا،اقلیتوں کے حقوق سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔
اسلام آبادمیں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ مجھے قائمقام چیف جسٹس پاکستان کہا گیا جو درست نہیں،میں سینئر ترین جج ہوں قائمقام چیف جسٹس نہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں،میں سینئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تندرست اور توانا ہیں اللہ پاک انکو صحت دے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا غیر آئینی ہوگا،کسی کے پاس یہ آپشن نہیں کہ کہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا،سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا آئین کا تقاضا ہے،پاکستان کے موجودہ نظام میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا لازم ہے،اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا تو پھر کوئی اور نظام لے آئیں،اپنے اختیارات کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد کراؤں گا،اقلیتوں کے حقوق سے متعلق فیصلے پر انشا اللہ عملدرآمد ہوگا،افسوس کی بات ہے سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا،اقلیتوں کے بنیادی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا،یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو، یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا،فیصلے پر عمل نہ کرنا آئین کے ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، کسی کے پاس اختیار نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرے،فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کی صوابدید ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کسی قسم کی انتظامی مداخلت نہیں ہونی چاہیے،سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے کا انتظامیہ کو کوئی اختیار نہیں،عدالتی فیصلہ پرعمل نہ ہونے کے نتائج ہوتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اختیارات کی تقسیم کے اصول کو ختم نہیں ہونا چاہیے، اقلیت صرف تعداد کی بات ہے جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہی اقلیتوں کے بھی ہیں،اقلیتوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،پاکستان سے متعلق جو انٹرنیشنل رپورٹس آرہی ہیں وہ ٹھیک نہیں،عدلیہ میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام رہے ہیں،ہمارے نبی پاکؐ نے فرمایا مذہبی آزادی سب کو حاصل ہے،حضورؐپاک نے عیسائیوں کے چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے سے روکا اور انکو حقوق دیئے،اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیم دیتا ہے،اسلام کے بعد آئین پاکستان بھی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے،ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا،بابا گرونانک سمیت ہر مذہب کے رہنماؤں نے احترام و بردباری کی بات کی،سمجھ نہیں آتی کہ مذہبی انتشار اور غصہ کیوں کیا جاتا ہے،سوچنے کی بات ہے کہ قرآن و سنت کے کیا احکامات ہیں اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئین تمام مذاہب کو عبادت کی اجازت دیتا ہے،آئین میں واضح ہے کہ پاکستان سماجی انصاف اور شرعی اصولوں پر قائم جمہوری ملک ہے،سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ میں اقلیتوں کیلئے پانچ فیصد کوٹے کا تحفظ یقینی بنایا،سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں،بین المذاہب ہم آہنگی پر مباحثے کی ضرورت ہے،تمام مذاہب دوسرے مذاہب کو جگہ دیتے ہیں تو ان کے ماننے والے کیوں نہیں دیتے؟ہر مذہب ایک دوسرے کو جگہ دے رہا ہے لیکن ہم کیوں اتنے تنگ نظر ہیں،اقلیتوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے بات کرونگا۔
سینئر جج سپریم کورٹ نے کہاکہ مبارک علی ثانی کیس میں اقلیتوں کے ملازمتوں میں کوٹے کا تحفظ کیا گیا،سارے مذاہب کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کا خیال کریں،ہمیں تحمل و برداشت کی طرف آنا پڑے گا،بطور شہری کہہ رہا ہوں تحمل سے معاشرے میں امن آئے گا،تحمل کے سبب نہ صرف معاشرہ ترقی کرے گا بلکہ اس سے نوکریوں میں اضافہ ہوگا، عدم برداشت کے سبب معاشرے میں بدامنی آتی ہے اور تقسیم پیدا ہوتی ہے، تشدد سے ملک معاشی بدحالی کا شکار ہوگا ترقی رک جائے گی،انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،حکومت کو سے حوالے سے کچھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،حکومت کو بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ورک شاپس کے انعقاد کی بھی ضرورت ہے۔