(24نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق خبر پر توہین عدالت کیس کی 7 دسمبر کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا جس میں رانا شمیم اور میر شکیل الرحمان سمیت تمام فریقین کے جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بے بنیاد بیان حلفی اور غلط خبر پر کیوں نا تمام فریقین پر فرد جرم عائد کی جائے؟
یہ بھی پڑھیں:بیوروکریسی ذمہ داریاں ایمانداری، شفافیت اور قانون کے مطابق ادا کرے، چیف جسٹس گلزار احمد
عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں اس وقت بیان حلفی کے پیچھے نیک نیتی نظر نہیں آتی، 3 سال تک رانا شمیم کی خاموشی ان کی سچائی پر سوال کھڑا کرتی ہے؟، رانا شمیم نے 15 جولائی 2018 کی گفتگو کا حوالہ دیا ، بیان حلفی میں ایک ایسے جج کا نام آیا جو بیرون ملک چھٹیوں پر تھے۔حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے جواب میں واضح کہا کہ انہوں نے بیان حلفی اخبار کو نہیں دیا۔ اپیلوں کی سماعت کے وقت بیان حلفی کی اخبار میں اشاعت کے علاوہ رپورٹر، ایڈیٹر اور پبلشر کے پیشہ وارانہ طرزعمل بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر برطانوی نوٹری پبلک نے اجازت کے بغیر بیان حلفی لیک کیا تو سنگین نتائج ہوں گے۔ عدالتی گراونڈز موجود ہیں جو رانا شمیم کا بیان حلفی غلط دکھاتی ہیں۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ بیان حلفی نوٹری پبلک لندن نے لیک کیاجس کے بعد اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ رانا شمیم اب اصل بیان حلفی پیش کریں۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے رانا شمیم کو آخری موقع دیا جاتا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے 13 دسمبر کو رانا شمیم سمیت تمام فریقین کو طلب کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں:مضبوط جمہوریت , پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی انسانی حقوق کی ضمانت ہیں،آصف علی زر داری