(24 نیوز)قومی سلامتی کا معاملہ اہم اور حساس ہے ۔لیکن اپوزیشن نے تو اِس اہم معاملے پر مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔پہلے آپریشن ویژن عزم استحکام پر اپوزیشن کی بھرپور مخالفت سامنے آئی ۔اب دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر حکومت نے حساس ادارے کو شہریوں کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی ہے تو اِس کے بعد تحریک انصاف اِس کی بھی مخالفت کرتی نظر آرہی ہے ۔خبر کے نوٹیفکیشن کے مطابق آئی ایس آئی کو فون ریکارڈ کرنے کی اجازت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی دفعہ 54 کے تحت دی گئی ہے۔ آئی ایس آئی کسی بھی ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کی ریکارڈنگ کر سکے گی۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ نوٹیفکیشن کے ذریعے کال ریکارڈنگ کے ساتھ میسجز اور کال ٹریس کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری سے آئی ایس آئی کے گریڈ 18 یا اس سے اوپر کے افسران کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق موبائل کال، واٹس ایپ کال، میسجز ودیگراپلی کیشنزکی ریکارڈنگ کی جاسکے گی۔۔اب حکومت نے یہ قدم قومی سلامتی کی غرض سے اُٹھایا ہے ۔دیکھا جائے تو اِس سے پہلے ملک میں فون ٹیپ کرنے کے حوالے سے یہ بحث اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چھڑی تھی ۔کہ فون ٹیپ کرنا قانونی ہے یا نہیں؟
یہاں یہ واضح رہے کہ 30 جون کو اسلام آبادہائیکورٹ کےجسٹس بابرستار نےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے اور بشریٰ بی بی آڈیو لیکس کیس کے فیصلے کے حکم نامے میں لکھا تھا کہ قانون کےمطابق شہریوں کی کسی قسم کی سرویلنس غیرقانونی عمل ہے،سسٹم کےذریعے40لاکھ شہریوں کی سرویلنس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پرہے،وزیراعظم اورکابینہ اس ماس سرویلنس کےاجتماعی اورانفرادی طورپرذمےدارہیں۔عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا تھا کہ عدالت امید کرتی ہےوزیراعظم انٹیلیجنس ایجنسیوں سےرپورٹس طلب کرکےمعاملہ کابینہ کےسامنےرکھیں گے،وزیراعظم لا فل مینیجمنٹ سسٹم سےمتعلق 6 ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرانےکے پابند ہوں گے،وزیراعظم بتائیں کہ کیا قانون و آئین کے برخلاف شہریوں کی سرویلنس جاری ہے؟حکم نامہ میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم بتائیں کہ لا فل انٹرسیپشن منیجمنٹ سسٹم کی تنصیب اور ماس سرویلنس کا ذمہ دار کون ہے؟وزیراعظم بتائیں کہ سرویلنس سسٹم کا انچارج کون ہےجو شہریوں کی پرائیویسی کو متاثر کر رہا ہے،تمام ٹیلی کام کمپنیاں لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم سےمتعلق اپنی رپورٹس 5 جولائی تک جمع کرائیں۔
اب اگر حکومت نے فون ٹیپنگ کے معاملے پر ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے اور حساس ادارے کہ گریڈ 18 کے افسر کو ٹیپنگ کرنے کی اجازت دی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کچھ ریکارڈ پر ہوگا کہ کال ریکارڈ کرنے والا کون ہے۔پہلے تو یہی پتہ نہیں لگتا تھاکہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی اور کیوں ریکارڈ کی ؟لیکن اب گریڈ 18 کا افسر تمام ٹیپنگ کا ذمہ دار تصور ہوگا۔اور اگر کسی کی غیر ضروری ریکارڈنگ ہوگی تو جس کی ریکارڈنگ ہورہی ہے وہ عدالت سےاِس معاملے پر رجوع کرسکے گا ۔یعنی دیکھا جائے تو حکومت ٹیپنگ کے معاملے میں ایک طرح کا چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے اقدام اُٹھا رہی ہے۔دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں بھی اعلانیہ غیر اعلانیہ طور پر شہریوں کی کال ٹیپ ہوتی ہے۔
بھارت میں بھی کال ٹیپ کرنے کی قانونی اجازت ہے ۔بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی اپنے دور حکومت میں قومی سلامتی کے نکتۂ نظر سے فون ٹیپنگ کو قانونی قرار دیا۔اور اُن کے دور میں کئی بھارتی صنعتکاروں کی کال ٹیپ کی گئی۔ یعنی دوسرے ممالک میں بھی قومی سلامتی کو لے کر فون ٹیپنگ کی مثال سامنے ہے تو پاکستان میں ایسا کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟تحریک انصاف تو اِس معاملے پر نقطہ چینی کر رہی ہے اور عمر ایوب اِس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں ۔اور حکومت کو خبردار کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون کل اُن کیلئے گلے کا پھندا بنے گا۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں