(24نیوز)اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا کیخلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی، پی ٹی آئی کے معاون وکیل مرتضیٰ طوری عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر معاون وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ بیرسٹر سلمان صفدر راستے میں ہیں، 20 منٹ تک عدالت پہنچ جائیں گے لہذا عدالت سلمان صفدر کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردے۔
بعد ازاں عدالت نے سلمان صفدر کے پہنچنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا، وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، خدیجہ صدیقی، خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوگئے، خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ کے معاون وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
بشریٰ بی بی کی جانب سے وکیل خدیجہ صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ پینل کوڈ میں کہیں عدت کا لفظ نہیں ملا، سابقہ شوہر کسی صورت نہیں بتا سکتا کہ عدت اور خاتون کی ماہواری کے تین سائیکل کب مکمل ہوئے؟ سابقہ شوہر نے شکایت بھی 2000 دنوں کے بعد فائل کی، عدت میں شادی کے حوالے سے پہلے بھی کئی کیسز ہوئے تاہم یہ پہلا کیس کہا جاسکتا ہے جو زیادہ مشہور ہوا۔
خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جرم تب بنتا ہے جب ثابت ہو کہ عدت میں شادی ہوئی، اپریل 2017 میں زبانی طلاق دی، بشریٰ بی بی اپنی عدت گزار کر اپنی والدہ کے گھر گئیں، بیک ڈیٹ میں طلاق نامہ بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اس کیس میں حمل کا بھی کوئی معاملہ نہیں ہے،اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی طرف سے اسلامک اور ہمارے قانون دونوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے، ایک پر نہیں رک رہے۔
اس پر وکیل نے کہا کہ میاں بیوی کہہ رہے ہیں کہ ہماری شادی ہوچکی ہے مگر عدالت کہہ رہی کہ نہیں ہوئی، جج نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ یہ بات عدالت نہیں کہہ رہی ہے،وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ فاسق اور باطل کے حوالے سے بڑے واضح قانون بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فراڈ میں میاں بیوی میں سے ایک بندے کو سزا ملنی ہوتی ہے، فراڈ ہمیشہ دو کے درمیان ہوتا ہے، یہاں پر نہیں بتایا گیا کہ کس کے ساتھ فراڈ ہوا؟ کسی دھوکے کی نیت سے کی گئی شادی فراڈ کہلائی جا سکتی ہے لیکن اس کیس میں دونوں میاں بیوی نے اسلامی اصولوں کے مطابق شادی کی ہے،اسی کے ساتھ خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے، اس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ یہ مکمل طور پر 40 منٹ کے دلائل کا کیس ہے۔
وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں پراسیکیوشن مکمل طور پر جھوٹ پر کھڑی ہے، وکیل سلمان صفدر نے مزید کہا کہ اس کو دیکھتے ہوئے خواجہ آصف کا بیان میرے ذہن میں آتا ہے مگر وہ بولوں گا نہیں، میں ججمنٹس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ آپ کو سب فیصلوں کا پتا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 2، 3 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرلیا، یہ کیس فیملی کورٹس کا بنتا تھا مگر وہاں گئے ہی نہیں،جج افضل مجوکا کا کہنا تھا کہ مرد کے پاس رجوع کا حق ہے اور آگے رجوع کرنا یا نا کرنا عورت کی مرضی ہے، وکیل نے بتایا کہ گزشتہ روز بھی ایک بات کی کہ یہ کیس سیاسی انتقام کے نتیجے میں بنایا گیا ہے، عدت کے دورانیہ کے ذکر کو چھوڑ کر بھی اس کیس میں سے بری کرایا جا سکتا ہے ، ایک اجنبی شکایت کنندہ بنتا ہے اور پھر وہ غائب ہوجاتا ہے، پھر چھ سال بعد خاوند آتا ہے اور شکایت کنندہ بن جاتا ہے، صرف یہ ہی چیز کافی ہے کیس ہو ختم کرنے کے لیے ، 2 ہزار دن چپ رہنے پر آپ نظر کرم کریں تو میرے مؤکل بری ہوسکتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ 2 الزامات میں سے ایک ختم ہوجاتا ہے تو مطلب آدھا کیس ختم ہوجاتا ہے ، جب ہم سے ایک ایک دن کا حساب مانگا جا رہا ہے تو ان سے بھی مانگا جائے کہ انہوں نے ٹائم فریم نہیں دیا۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی خلاف نہیں آیا ، ان کی اب یہ کوشش کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ادھر بلایا جائے ، خاور مانیکا نے اپنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ طلاق نامہ پر تاریخ پر ٹیمپرنگ کی گئی ہے ، اس بیان کے بعد سارا کیس ہی ختم ہوجاتا ہے ، عدالت نے اس پر توجہ نہیں دی مگر گواہ نے مان لیا کہ اوور رائٹنگ کی گئی ہے،ان کا کہنا تھا کہ ٹیمپرنگ والا کیسں کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ ان کے خلاف کیس بنتا تھا، فراڈ ثابت ہوگیا کہ میاں بیوی نے کسی کو دھوکا نہیں دیا بلکہ مدعی نے عدالت کو دھوکا دیا، اب عدالت دیکھ لے کہ اس پر سزا بنتی ہے یا نہیں ، جرح کے دوران خاور مانیکا سے پوچھا کہ طلاق نامہ کے اندر آپ نے وجوہات بیان کی ہیں کہ بشریٰ بی بی نے کیا دھوکا دیا؟ اس پر خاور مانیکا کا جواب نہ میں تھا۔
وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹیمپرنگ والے ڈاکومنٹ کے مطابق طلاق کے 48 دن بنتے ہیں، دوسری جانب اصل دستاویز کو پیش ہی نہیں کیا گیا، خاور مانیکا پر پی ٹی آئی کارکنان کو غم و غصہ ہے مگر ان پر مقدمے کا ذکر کروں تو ہوسکتا ہے ہمدردی ہو جائے ، خاور مانیکا 25 ستمبر کو گرفتار ہوئے اور 14 نومبر کو واپس آئے ، انہوں نے جرح کے دوران تصدیق کی ہے ، خاور مانیکا آزاد اور خود مختار گواہ نہیں ہیں ،ان کا بیان چیخ چیخ کر کہہ رہا کہ عدالت میرے بیان پر انحصار نہ کرے، سائفر کیس میں اعظم خان کا بھی ملزم کا اسٹیٹس تبدیل کیے بغیر گواہ کے طور پر عدالت پیش کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کریمنل کیس ہے، اس کریمنل کیس میں تھوڑا سا بھی شک ملزم کے حق میں جاتا ہے ، گواہوں میں بچہ کوئی نہیں آیا مگر عون چوہدری آگئے ، عون چوہدری کو منصوبہ بندی کے تحت گواہ بنایا گیا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک کا وقفہ کردیا،وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں باقی گواہوں پر نہیں جاؤں گا میری نظریں شکایت کنندہ سے آگے جاتی نہیں، خاور مانیکا کی یہ وضاحت قابل قبول نہیں کہ لوگوں نے باتیں کیں تو میں نے کیس کیا، عدالت اس کو مسترد کرے، خاور مانیکا نے کہا یہ درست ہے کہ میں نے جو ڈاکومنٹ دیا وہ فوٹو کاپی ہے، خاور مانیکا نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ ڈی جی لا بھی رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل فٹا فٹ اور اب تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ، تب تو فاضل دوست 6، 7 بجے کہتے تھے کہ یہ تو طریقہ نہیں، کام کریں، تو اب بھی کام کریں ناں۔
سلمان صفدر نے بتایا کہ طلاق نامہ فوٹو کاپی ہے اور اس پر یونین کونسل کے چیئرمین کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں، عون چوہدری سیاسی مخالف ہے ، انہوں نے بتایا کہ ہمارے اختلافات چینی بحران کی وجہ سے ہوئے، ایسا گواہ جو سیاسی حریف ہو تو کیا ایسے گواہ کی گواہی قبول ہے ؟
وکیل نے مزید کہا کہ جب میاں بیوی میں سے کسی کا قتل ہوتا ہے تب بھی پوچھا جاتا ہے کہ بچوں کا بیان لیا گیا ہے یا نہیں تو فیملی کسیز میں بھی فیملی ممبران کو گواہ بنایا جاتا ہے، مفتی سعید کو جو بھی گاڑی مل جائے ان میں بیٹھ جاتے چاہے حنیف ہو یا خاور مانیکا، خود ان پر بغاوت کا کیس چلا اور انہوں نے تصدیق بھی کی۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ دعا تب ہوتی ہے جب خاندان کی رضامندی ہوتی ہے ، بانی پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں بتایا کہ میرے دو بیٹے تھے، ان کو اعتماد میں لینا تھا،اسپر جج افضل مجوکا نے وکیل سے استفسار کیا کہ 342 کے بیانات میں صرف سوالوں کے جواب پر غور کرنا ہے یا سیاسی جوابات کو بھی دیکھنا ہے؟
بعد ازاں جج افضل مجوکا اور بیرسٹر سلمان صفدر کے درمیان 342 کے بیان کے حوالے سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالوں کا تبادلہ ہوا، وکیل نے بتایا کہ 342 کے بیان میں پوچھا گیا کہ عدت کے دورانیے میں خاتون کے بیان کی کیا اہمیت ہے؟
اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر عدت کے دورانیہ کے حوالے سے مفتی سعید کے وڈیو بیان کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا،وکیل نے دلائل دیے کہ شادی ، طلاق لاہور میں ہوتی ہے اور اپیل یہاں اسلام آباد میں دائر کی گئی ، جج نے استفسار کیا کہ کیا مسلم فیملی لا کے مطابق تحریری طلاق کے علاوہ طلاق نہیں ہوسکتی ؟ سلمان صفدر نے کہا کہ بالکل ہوسکتی ہے۔
اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر نے زینب عمیر ایڈوکیٹ کو روسٹرم پر بلانے کی استدعا کردی جسے عدالت نے منظور کرلی۔
بعد ازاں زینب عمیر ایڈووکیٹ نے بشریٰ بی بی کا 342 کا بیان پڑھ کر سنایا،اس پر عدالت نے خاور مانیکا کے وکلا سے طلاق نامے پر تاریخ کی ٹیمپرنگ کے حوالے سے جواب مانگ لیا۔
جج افضل مجوکا نے زاہد آصف کے معاون وکیل کو ہدایت دی کہ اپنے دلائل میں آپ نے یہ جواب دینا ہے کہ گواہوں کے بیانات ملزمان کو کیوں نہیں دیے گئے ؟ آپ نے کیس میں شہادت پیش ہی نہیں کی تو پڑھی کیسے جائے گی؟ اس پر بھی جواب دینا ہے۔
جج نے سلمان سفدر سے دریافت کیا کہ خاور مانیکا نے جو ذاتی باتیں بتائی ہیں وہ آپ لوگوں نے چیلنج کیوں نہیں کی ؟ وہ تو میاں بیوی کی ذاتی زندگی کی باتیں تھیں؟
بعد ازاں زینب عمیر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس صورتحال میں ہم عدت پر جا ہی نہیں سکتے ، عدت میں اس وقت جایا جا سکتا کہ اگر خاتون کے ہاں کوئی اولاد ہو تو سابقہ شوہر کلیم کرسکتا کہ وہ میرا ہے ، سپریم کورٹ کی آخری ججمنٹ کے مطابق میڈیکل طور پر 39 دن عدت کا دورانیہ بتایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ شادی عدت کے دوران نہیں کی گئی ، پورے پاکستان میں کبھی ایسا کیس نہیں آیا ، تو اس کو شرعی لحاظ سے بھی دیکھا جائے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی دوسری شادی پہلے ہی مشکل بنی ہوئی ہے، یہ کیس اب پورے معاشرے کا کیس بن گیا ہے۔
بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے اوور رائٹنگ کے حوالے سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ کیس ایک ڈاکومنٹ اور تاریخ پر چل رہا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے فراڈ شادی کے حوالے سے بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا،ان کا کہنا تھا کہ 2 ہزار دن تک خاور مانیکا نے سول کورٹ سے رجوع نہیں کیا ، جج نے خاور مانیکا کے وکیل سے دریافت کیا کہ آپ کہتے ہیں عدت کے دوران نکاح ہوا تو خاور مانیکا نے دوران عدت درخواست کیوں نہیں دی ؟
بشریٰ بی بی کے وکیل نے مزید کہا کہ ایک جملہ سپریم کورٹ میں بھی بولا تھا آج بھی بول رہا کہ یہ کیس بھی اغوا برائے بیان کا ہے ، 2 ہزار دن بعد رجوع کرنا ، طلاق نامے پر تاریخ پر ٹیمپرنگ کرنا اور خاور مانیکا کا گرفتار ہونا ، یہ میرے پوائنٹس ہے۔
اسی کے ساتھ بشریٰ بی بی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
اس کے بعد خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کی جانب سے جج افضل مجوکا کی عدالت میں 2 درخواستیں دائر کردی گئیں، ایک درخواست میڈیکل بورڈ کے ذریعے میڈیکل رائے لینے اور دوسری درخواست عدت کے معاملہ پر اسلامی نظریاتی کونسل، فیڈرل شریعت کورٹ اور اسلامی سکالرز کی رائے لینے سے متعلق دائر کی گئی،جج افضل مجوکا نے خاور مانیکا کے وکیل کی درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔
خیال رہے کہ 9 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی تھی۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں مرکزی اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کے حکم پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔