انتخابی نتائج نے بی جے پی کے مستقبل کا تعین کر دیا ؟

اسلم اعوان

Jun 10, 2024 | 20:31:PM

بھارتی انتخابات کے غیرمتوقع نتائج نے ایک بار پھر انسانی سماج کی فطری بوقلیمونی اور سیاست کی پیچیدہ جدلیا ت کی تفہیم کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کو ششدر کر دیا،رواں سال کے آغاز میں جب، نریندر مودی نے عظیم الشان ہندو مندر کی سیڑھیوں سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم وقت کی ایسی نئی گردشیں تخلیق کرنے نکلے ہیں جس سے ہندوستان ”خدائی“ دور میں داخل ہونے والا ہے،تو تب کسی کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ وقت کی صرف ایک کروٹ ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے گی۔لاریب، غیر متوقع انتخابی نتائج نے ایسے ملک میں صدمہ کی لہریں دوڑا دی جہاں ہندو قوم پرستی کا آتشیں نظریہ مودی کی قیادت میں اجتماعی زندگی کی مرکزیت حاصل کرنے والا تھا لیکن جیسا کہ انتخابی نتائج نے ظاہر کیا،فطرت اجتماعی بقاءکی خاطر زندگی کے بہتے دھارے کو ہمیشہ ہموار رکھتی ہے،چنانچہ بہت سے ووٹروں کے لیے، بی جے پی کا سلبی نظریہ زیست کے کہیں زیادہ گہرے مسائل کی تلافی نہیں کر سکتا تھا ، بشمول بڑھتی ہوئی بے روزگاری، کمر توڑ مہنگائی اور سب سے بڑھ کر سماجی تقسیم کی وہ خونی لکیر جس نے انسانیت کا قافیہ تنگ کر دیا تھا،بلاشبہ تاریخ اسی طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے،بلند توقعات کے برعکس حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی میدان ہار گئی،یعنی رائے عامہ نے یک جماعتی آمریت کی طرف بڑھتے نریندر مودی کے قدم روک کر مسلسل تیسری بار الیکشن جیتنے کے باوجود انہیں ایسی مخلوط حکومت بنانے پہ مجبور کر دیا،جو ان کے ارادوں کی راہ میں حائل رہے گی۔

کانگریس کے سربراہ ملکارجن کھرگے نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا ”عوامی مینڈیٹ نے بی جے پی کی نفرت و بدعنوانی کی سیاست کو مناسب جواب دیا یہ دراصل دستور ہند کے دفاع اور جمہوریت کو بچانے کا مینڈیٹ ہے“۔کانگریس کی لیڈر شپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ مودی سرکار نے محکمہ ٹیکس کے ذریعے الیکشن سے قبل پارٹی اکاونٹس منجمد کراکے ان کی انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت کو ختم کر دیا، جس سے وہ تقریباً 20 ملین ڈالر کے فنڈز استعمال کرنے سے قاصر رہے۔اسی طرح دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے مقبول لیڈر اروند کیجریوال کی مبینہ بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لیا گیا، اب انتخابی مہم کے اختتام پر بری ہونے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی کے پاس تمام جماعتوں سے زیادہ سرمایا تھا، انہوں نے ملک کے پورے میڈیا کو اپنے ترجمان کے طور پر کھڑا کیا اورکھل کر ریاستی وسائل استعمال کرنے کے باوجود235 نشستیں حاصل کرنا ہار نہیں تو اور کیا ہے ؟۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 543 نشستوں والے ایوان زیریں میں اپنے 370 کے ہدف (اتحادی شراکت داروں کے ساتھ اس بار 400 پار) سے کافی حد تک پیچھے رہ کر مکمل پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ انتخابات کے دوران پارٹی کے چہرے کے طور پر مودی کو رول ماڈل بنا کر پیش کرنے کے باوجود مایوس کن نتائج نے مودی برانڈ کے تصور کو بھی بیکار بنا دیا۔

اگرچہ بی جے پی حکومت نے انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کی ابھرتی ہوئی عالمی حیثیت اور ہندو قوم پرستی کے شکوہ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس مصنوعی عروج کی تہہ میں پنپنے والے انسانی دکھ خاصکر معاش جیسے زندگی کے بنیادی مسائل بالآخر ووٹروں کے لئے ترجیح اول ثابت ہوئے چنانچہ عوام کی اکثریت نے بی جے پی کی تقسیم کرنے والی ہندوتوا (ہندو قوم پرست) کے بیانیہ کو ردّ کرکے اعتدال کی راہ اپنائی، خاص طور پر وہ لوگ جو سیکولر نقطہ نظر کے حامی یا پھر ملک کے جنوبی حصوں میں مضبوط علاقائی شناخت کے حاملین کے علاوہ ہندوستان کی وہ تمام مذہبی اقلیتیں جنہیں ہندو توا نے فنا و بقا کے خطہ امتیاز پہ لا کھڑا کیا تھا ۔ ہندوستان کو دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی بڑی معیشت کے طور پر فروغ دینے کی دعویدار بی جے پی ایک ایسے ملک میں کیسے آگے بڑھ سکتی تھی جہاں سماجی عدم مساوات اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کو بے روزگاری کی بدترین صورت حال کا سامنا ہو ۔کیا حالیہ انتخابی نتائج مودی کے لیے زوال کی طرف سفر کا آغاز ہیں؟ اپنی کمزور پوزیشن کے باوجود فی الحال مودی کو مکمل طور پر ختم کرنا جلد ممکن نہیں ہو گا۔ وہ ہندوستان کی تاریخ میں دوسرے وزیر اعظم ہوں گے جنہیں مسلسل تیسری بار وزرات اعظمی کا عہدہ سنبھالنے کا موقعہ ملے گا، قبل ازیں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔بلاشبہ تازہ مینڈیٹ کی وجہ سے مودی کے شخصیت پرستی کی شکست و ریخت کی وجہ سے بھارتی سیاست میں یہ بنیادی تبدیلی رونما ہوئی کہ انتخابی نتائج نے ہندوستان کی جمہوری ساکھ کو دوبارہ بحال کر دیا حالانکہ تیسری مدت کے لئے مودی حکومت کو ہندوستانی جمہوریت کے لیے موت کی گھنٹی بتایا جا رہا تھا ، انتخابات نے ظاہر کیا ہے کہ جمہوریت مضبوط ہے اور بڑی آبادی کے حامل ہندوستان جیسے متنوع ملک میں اسے آسانی سے الٹا نہیں جا سکتا ۔

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہار میں جے ڈی (یو) (جنتا دل یونائیٹڈ) اور آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی (تیلیگو دیشم پارٹی) جیسی علاقائی پارٹیاںکنگ میکر بن کر ابھریں۔مہاراشٹر، جھاڑکھنڈ اور ہریانہ سمیت کئی ریاستوں میں ابھی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں، یہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بی جے پی کی پوزیشن کے تناظر میں نہایت اہم ہوں گے، جہاں مودی پارٹی کو اب بھی اکثریت حاصل نہیں ہے، ریاستیں ہی ایوان بالا کی تشکیل کا تعین کرتی ہیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کی مضبوط پوزیشن ہی قانون سازی کو آسان بنا سکتی تھی، ایوان بالا میں کمزور پوزیشن کے باعث آئینی ترامیم اور مطلوبہ قانون سازی کا امکان کم ہونے کے علاوہ 2029 میں چوتھی مدت کے لئے مودی کے کھڑے ہونے کا امکان بھی معدوم ہو گیا۔بھارت کی سب سے بڑی اور انتخابی لحاظ سے نتیجہ خیز ریاست اتر پردیش میں پارٹی کی ناقص کارکردگی نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حیثیت کو کمزور کر دیا، جنہیں مودی کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔پالیسی نقطہ نظر سے بہرحال انتخابی نتائج بھارتی حکومت کی پالیسی سازی کی صلاحیت کو متاثر کریں گے، جسمیں حساس اقتصادی اصلاحات، جیسے زمین کا حصول اور لیبر کی اصلاحات کی طرف پیشقدمی مشکل ہو جائے گی۔ یہی عوامل انتخابات سے پہلے ہی چیلنجنگ تھے، جیسا کہ 2021 میں دیکھا گیا تھا جب بڑے پیمانے پر کسانوں کے مزاحمتی احتجاج نے زرعی اصلاحات کے نفاذ کی راہ روک لی تھی۔ تاہم،اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اب اچانک اور یکطرفہ تبدیلیوں کا خطرہ کم اور پالیسی سازی زیادہ وسیع اتفاق رائے پر مبنی ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے ۔

اگرچہ اب بھی بی جے پی ہندو توا بیانیہ کے ذریعے اپنے نظریاتی حامیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن موجودہ بندوبست نے بی جے پی کو اپنی زیادہ متنازعہ شناخت پر مبنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے روکا لیا، ان میں ایک یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا منصوبہ تھا، جس میں مسلم، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی نجی زندگی کو ریگولیٹ کرنے والے پرسنل لاءکا خاتمہ شامل تھا، تیسرے دور میں اِنہی ممکنہ آئینی تبدیلیوں کے ذریعے سیاسی طاقت کو مرکزیت دینے کے منصوبہ کے تحت چین کے طرز پر یک جماعتی آمریت قائم کرنا مقصود تھی ۔ بی جے پی کے منشور میں 2047 تک ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا وعدہ ایک قسم کی استبدادی رجیم سے مشروط نظر آتا تھا ۔ چنانچہ نئی حکومت کی کلیدی پالیسی ترجیح غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے مزید سازگار ماحول پیدا کرنا اور ہندوستان کو ایک قابل اعتماد عالمی مینوفیکچرنگ مرکز میں تبدیل کرنا ہوگی ۔ خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے، اس کے لیے برطانیہ سمیت متعدد ممالک سے جاری آزاد تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی، اگرچہ مذاکرات اب بھی جاری رہیں گے لیکن نئی دہلی میں کمزور مخلوط حکومت اور ویسٹ منسٹر میں حکومت کی ممکنہ تبدیلی سے پیشرفت تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔مودی حکومت نے ہندوستان کو تہذیبی ریاست کے طور پر آگے بڑھاتے ہوئے ایک زیادہ جارحانہ اور نظریاتی طور پر چلنے والی خارجہ پالیسی کو اپنایا ہوا تھا ہر چند کہ اب بھی ہندوستان جارحانہ خارجہ پالیسی ترک نہیں کرے گا لیکن اب اس کی گونج قدرے مدہم ہو گی کیونکہ بی جے پی کی زیرقیادت نئی مخلوط حکومت مایوس کن انتخابی نتائج کے بعد اپنی بقاءکی خاطر اندر کی طرف سمٹنے پر مجبور ہے۔جیسے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے زیادہ متنازعہ عناصر ، جنہیں کینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے،کے پسپا ہونے کا امکان بڑ ھ گیا ۔ بہرحال انتخابی نتائج نے ہندوستان کی جمہوریت کی مضبوطی اور لچک کو اجاگر اور اس کی سیکولر حیثیت کو زیادہ مضبوط کر دیا لیکن یہ مینڈیٹ بھارت کی پالیسی ساز اداروں خاص کر خارجہ پالیسی پر تیسری مدت کی کمزور مودی حکومت کے اثرات بارے کئی سوالات بھی چھوڑ گیا ہے ۔بالآخر، نتیجہ اندرون ملک ایک حد تک سیاسی استحکام اور جمہوری تسلسل میں دوام پیدا ہو گا جب کہ کمزور مینڈیٹ بی جے پی کی اپنی شناخت پر مبنی تقسیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کو کند کر دے گا۔

مزیدخبریں