(راؤدلشاد)پنجاب اسمبلی میں عدلیہ کی مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین ایک انتہائی مقدس دستاویز ہے جو 1973 میں پاکستان کی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا،ریاستی ادارے جتنے مضبوط فعال اور قابل اعتماد ہوں گے ریاست بھی اتنی طاقتور اور باوقار ہو گی،جب بھی مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود میں مداخلت کی تو ملک بحرانوں کاشکار ہوا، آئین پاکستان کو بنےبرس بیت چکے مگر وطن عزیز میں آج بھی عملی طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کیسے سفر کرنا ہے۔
قرارداد کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کےساتھ پچھلی غلطیاں دوبارہ دہرائی جاتی ہیں،انتظامیہ کی کمزوریوں پرضرور تنقید کی جائے لیکن اس کے اچھے کاموں کو سراہا بھی جانا چاہئے اور اس کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت نہ کی جائے،انتظامیہ کے بارے میں معاشرے میں بھی منفی تاثر کوزیادہ پھیلایا گیا جس سے عوام کے دلوں میں اس کی ساکھ سوالیہ نشان رہی ہے۔
متن میں مزید کہا گیا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی آڑ میں بار بار انتظامیہ کی آئینی حدود میں عدلیہ کی جانب سے مداخلت کی ایک تاریخ موجود ہے، 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 184 کابے دریغ استعمال ہوا اور ان گنت سوموٹو نوٹسز لئے گئے،این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کوخط نہ لکھنے کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا سنادی گئی اور وہ آرٹیکل 63 کے تحت پانچ سال کیلئے نااہل ہوگئے، عدالتي اختيارات کے انتظامیہ میں مداخلت کا خودعدلیہ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلوں میں کیا، ایوان کی یہ رائے بھی ہے کہ تمام اداروں اورستونوں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرناچاہئے تاکہ پاکستان کو در پیش بحرانوں سے نکالا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی صدر کے بعد ایک اور ملک کے نائب صدر کا طیارہ لاپتہ، کتنے افراد سوار تھے؟اہم خبر